کراچی ( اسٹاف رپورٹر) ملیر ایکسپریس وے کے کاٹھوڑ انٹرچینج کو چھہ رویہ کرنے اوراین ای ڈی ٹیکنالوجی پارک کیلئے17منزلہ عمارت تعمیر کرنے کی منظوری ،گھوٹکی کندھ کوٹ پل کی تعمیر کیلئے دو ارب روپے جاری کرنے کی بھی منظوری ، تفصیلات کے مطابق جمعہ کو وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پالیسی بورڈ کے 46ویں اجلاس میں ، صنعتوں کو پانی کی سپلائی کےلیے ویسٹ کراچی واٹر ری سائیکلنگ پروجیکٹ 1، ڈی ایچ اے اور صفورہ کو پینے کے پانی کی سپلائی کےلیے کھارے پانے کو میٹھا بنانے کے پلانٹ لگانے،ملیر ایکسپریس وے کے کاٹھوڑ انٹرچینج کو چھہ رویہ کرنے اور گھوٹکی کندھ کوٹ پل کی تعمیر کےلیے دو ارب روپے مختص کرنے کی منظوری دیدی۔ اجلاس کو یتایا گیا کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کراچی کے شہریوں کو پینے کا پانی فراہم کرنے کیلئے سرکاری اور نجی شعبے کی شراکت سے منصوبہ شروع کرنے جا رہی ہے اجلاس وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہوا، صوبائی وزرا ڈاکٹر عذرہ پیچوہو، ضیا لنجار، سردار شاہ، علی حسن زرداری، جام اکرام دھاریجو، چیف سیکریٹری آصف حیدر اہ، اراکین اسمبلی غلام قادر چانڈیو، قاسم سومرو، چیئرمین پی اینڈ ڈی نجم ششاہ، سیکریٹری داخلہ اقبال میمن، سیکریٹری اسکول تعلیم زاہد عبداسی، ڈی جی پی پی پی یونٹ اسد ضامن اور دیگر حکام نے شرکت کی۔ این ای ڈی سائنس و ٹیکنالوجی پارک کے بارے میں وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ منصوبہ کویتی کمپنی کے ساتھ دونوں حکومت کے تعاون سے بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ حکومت سندھ پہلے سے ہی ایک ارب 70 کروڑ روپے حکومت سندھ کے حصے کے طور پر منظور کر چکے ہیں۔ اکتوبر 2024میں فضائی سروے کے بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی نے گراؤنڈ فلور سے اوپر 218.3 فٹ اونچی عمارت کی تعمیر کا این او سی جاری کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے تصدیق کی کہ عمارت پر پانی کے ٹینک، اشتہاری بورڈ، انٹینا یا چھت پر دوسری کسی تعمیر سے طیاروں کی سیفٹی پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے پی پی پی یونٹ کو نومبر 2024 کے آخر تک ٹھیکے کو حتمی شکل دینے کی ہدایت کی تاکہ تعمیراتی کام کا آغاز کیا جاسکے۔ انہوں نے زور دیا کہ وہ منصوبے کی دو سال میں تکمیل چاہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ این ای ڈی کی حدود میں سرکاری اور نجی شعبے کی شراکت سے بننے والا یہ پاکستان کا پہلا مکمل آئی ٹی پارک ہوگا۔ منصوبے میں بیسمنٹ اور 20 منزلیں شامل ہوں گی۔ پارک میں ٹیکنالوجی کمپنیوں، بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوںِ چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں ، تحقیقاتی کمپنیوں اور اسٹارٹ اپس کو سب لیز پر دیے جائیں گے۔