کراچی(مطلوب حسین/ اسٹاف رپورٹر) محمود آباد پولیس کے شعبہ تفتیش کی جانب سے اغواء کے مقدمہ میں مبینہ طور پر بگناہ شہری کو نامزد کرنے کیخلاف سی پی او کراچی کے انٹرنل اکائونٹی بیلیٹی بیورو انکوائری کو تقریبا 2ماہ کا عرصہ ہونے کے باوجود متاثرہ شہری کو انصاف نہیں مل سکا، مبینہ طور پر اعلیٰ پولیس آفسران اپنے ماتحت آفیسر کو بچانے کیلئے انکوائری کو دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق محمود آباد تھانہ میں20 روری 2024 کو محمد رضوان ولد محمد رمضان کی جانب سے رپورٹ درج کرائی گئی کہ چنیسر گوٹھ میں واقع انکی رہائش گاہ سے صبح انکی بیٹی کالج کیلئے نکلی مگر واپس نہیں آئی، مدعی نے دعویٰ کیا کہ انکی بیٹی کو نامعلوم ملزمان نے اغواء کیا ہے جسکا مقدمہ الزام نمبر 24/61 زیر دفعہ 365Bدرج کیا گیا۔ بعد ازاں محمود آباد پولیس کے شعبہ تفتیش کی جانب سے شہزاد احمد ولد عبدالرزاق کو بلاوجہ اغواء کے مقدمہ میں نامزد کرکے جیل بھیج دیا گیا، شہزاد احمد کی جانب سے آئی جی سندھ کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کیخلاف تحریری شکایت درج کرائی گئی جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ مدعی مقدمہ محمد رضوان نے تھانہ محمود آباد کے اس وقت کے ایس آئی او قربان علی عباسی کے ساتھ ملکر مجھے ڈرایا دھمکایا اور مجھ سے 10 لاکھ روپوں کا تقاضا کیا اور پیسے نہ دینے پر مجھے غیر قانونی طور پر گرفتار کرکے تھانہ محمود آباد منتقل کیا گیا، شہزاد کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریری درخواست پر ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس کے اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل عمران قریشی کی جانب سے18 ستمبر 2024 کو ایس ایس پی انوسٹی Iضلع شرقی علینا راجپر کو بھیجے گئے مراسلہ میں ہدایات جاری کی گئیں ہیں کہ شہزاد کی جانب سے جمع کرائی گئی مذکورہ شکایت کے مندرجات کے ساتھ ساتھ سی پی او سندھ کراچی کے انٹر نل اکائونٹیبیلیٹی بیورو کے طریقہ کار کے ذریعے، متعلقہ قواعد کے مطابق الزامات کی انکوائری کی جائے اور 14 یوم کے اندر مخصوص نتائج اور سفارشات کے ساتھ رپورٹ ائی جی سندھ کی خد مت میں پیش کی جائے۔ انکوائری لیٹر کو جاری ہوئے تقریبا 2 ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود بیگناہ جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے والے شہری کو انصاف نہیں مل سکا، ایس ایس پی انوسٹی گیشن ایسٹ کی جانب سے شہزاد احمد کی شکایت کی انکوائری رپورٹ سامنے نہیں آسکی، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہےکہ پولیس کے اعلیٰ آفسران بھی اپنے ماتحت آفیسر کو بچانے کیلئے انکوائری کو دبانے کی کوشش کررہے ہں، اس سلسلہ میں موقف جانے کیلئے علینا راجپر سے انکے موبائل فون پر رابطہ کیا گیا جس پر انکی جانب سے کال کاٹ دی گئی جبکہ انکے واٹس اپ پر تحریری طور پر سوالات ارسال کئے گئے جسکا بھی انہوں نے جواب نہیں دیا۔