پاکستان کے افق پر نئے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ پانچ سالہ منصوبہ زیر غور ہے اور پی آئی اے، انشورنس کمپنیوں، یوٹیلیٹی اسٹورز،سرکاری انجینئرنگ اور صنعتی یونٹس کی نیلامی کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ تاہم، کیا نجکاری کی یہ مہم کبھی پایہ تکمیل تک پہنچ سکے گی؟ عجیب بات ہے کہ قومی ملکیت میں لئے جانے کے منفی اثرات سے میرا واسطہ لاڑکانہ میں پڑا، جو ذوالفقار علی بھٹو کا آبائی حلقہ تھا۔ تربیت کے بعد، مجھے ضلعی انتظامی امور کا تجربہ حاصل کرنےکیلئے اندرون سندھ تعینات کیا گیا۔ بھٹو سرکار پہلے ہی بینک اور بھاری صنعتیں قومیا چکی تھی، اور حال ہی میں کاٹن جننگ (Ginning) فیکٹریاں اور رائس ہسکنگ (Husking) یونٹس فہرست میں شامل کئے گئے تھے ۔ لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر خالد کھرل ایک محنتی منتظم تھے جن کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ یہ اگست کی حبس زدہ شام تھی۔ ڈپٹی کمشنر مجھے مقامی سیاسی سازشوں کی دلچسپ کہانیاں سنا رہے تھے۔ ایک ملازم ایک بوڑھے ہاری (کسان) کو لیکر آیا جس نے مقامی رائس ہسکنگ یونٹ کے منیجر کی طرف سے رشوت کے مطالبے کی شکایت کی۔ متحرک ڈپٹی کمشنر نےوقت ضائع کئے بغیراگلے آدھے گھنٹے میں فیکٹری کا دورہ کر کے معاملہ حل کر دیا۔ واپس لوٹنے پر، ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ اگرچہ فیکٹری منیجر قصوروار تھا، ليکن انتخابات قریب ہونیکی وجہ سے وہ اپنی ملازمت پر برقرار رہیگا کیونکہ وہ ایک بااثر سیاستدان کا بیٹا ہے۔ اس اطلاع سے مایوس ہو کر میں چھوٹے صنعتی یونٹس پر کنٹرول سنبھالنے کے حکومتی فیصلے کی منطق جاننے کیلئے بے تاب تھا۔ خالد کھرل صاف گو اور بے باک انسان تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کا حصہ تھا۔ قومیانے کا مقصد پارٹی کے حامیوں کو سیاسی سرپرستی سے نوازنا تھا۔
یہ سن کر مجھے جھٹکا لگا۔ گزشتہ برس تک، میں لاہور کے گورنمنٹ کالج میں معاشیات اور سیاست کا طالبعلم تھا۔ میری تعلیمی تربیت، پیداوار کے ذرائع پر کنٹرول کو مختلف انداز میں دیکھتی تھی یہ مسئلہ سرمایہ داری اور سوشلزم کے درمیان تنازع کا مرکزی نکتہ تھا۔ امریکی پالیسیوں کی تشکیل تاریخی طور پر جیفرسونی (Jeffersonian) سیاست اور ہنری ڈیوڈ تھورو کے فلسفے سے ہوئی تھی، جن کا مشہور موقف تھا، ’’وہ حکومت بہترین ہے جو کم سے کم حکمرانی کرتی ہے‘‘۔ دوسری طرف، کمیونزم کا فلسفہ صنعت کی ملکیت ریاست کو دینے پر یقین رکھتا تھا تاکہ اسے لالچی سرمایہ داروں کے شکنجے سے بچایا جاسکے جو مزدوروں کی محنت کا استحصال کرتے تھے ۔
کارل مارکس کا فلسفہ سوویت یونین میں کامیاب انقلاب اکتوبر کے بعد مقبول ہوا۔ 1929ء کی کساد بازاری نے Keynesian معاشیات اور حکومت کی معاشی انتظام میں شمولیت متعارف کروائی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد عوام الناس برطانیہ کی لیبر پارٹی کو اقتدار میں لے آئی، جس سے صنعتیں قومیانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یوں سرمایہ داری نظام میں بھی ریاست کی طرف سے معیشت پر کنٹرول جائز ٹھہرا۔ اسی وقت سامراجی طاقتوں کی غلامی سے آزاد ہونیوالی نئی ریاستیں تیز رفتار اقتصادی ترقی چاہتی تھیں۔ سوویت یونین کی کامیابی نے رہنمائوں کو پانچ سالہ منصوبے اور بنیادی صنعتوں پر ریاستی کنٹرول قائم کرنے پر مائل کیا۔ پاکستان کی آزادی کے بعد یہ بھی محسوس کیا گیا کہ نجی شعبے کے پاس طویل مدتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کیلئے وسائل اور کاروباری صلاحیت نہیں تھی۔ 51-1950ء میں، پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن (PIDC) کے قیام کیساتھ صنعت میں ریاستی سرمایہ کاری شروع ہوئی اور آنے والے برسوں میں جاری رہی۔ آبی وسائل میں سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے، 1958 ء کے آغاز میں پاکستان واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (WAPDA) کا قیام عمل میں آیا۔ مارشل لا کے نفاذ کے بعد، ایوب خان کی حکومت نے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی لیکن PIDC کے پلیٹ فارم کے ذریعے سرمایہ کاری برقرار رکھی، اور یوں پاکستان میں صنعتی ترقی کا سفر جاری رہا۔ ضياء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسی واپس نہیں لی، جس نے رائس ہسکنگ اور کاٹن جننگ کی نج کاری کی لیکن چند ایک کاروباری یونٹس کے علاوہ بھاری صنعتیں نجی شعبے کو واپس نہیں کیں۔ یہ حقیقت ہے، کہ جلد یا بدیر سرکاری صنعتیں نقصان اٹھانا شروع کر دیتی ہیں جس کا بوجھ بالآخر ٹیکس دہندگان پر پڑتا ہے۔ وجہ سادہ ہے۔ جہاں نجی شعبے کو کاروباری لچک میسر ہوتی ہے ، وہاں سرکاری ادارے مالی نظم و ضبط ، سخت عدالتی نگرانی، خریداری کے ضوابط اور سرکاری آڈیٹرز کے شکنجے میں کام کرتے ہیں۔ پاکستان میں نجکاری کا عمل 1991ءمیں شروع ہوا۔ اس کام کیلئے ایک الگ وزارت قائم کی گئی۔ تاہم، بینکوں کے علاوہ، ریاستی ملکیتی ادارے حکومت کے پاس ہی رہے۔ وقت کے ساتھ، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (PIA) حد سے زیادہ عملے کی تعداد کے ساتھ سب سے زیادہ ملازمین فی مسافر نشست کے ندامت آمیز امتیاز کا شکار ہو گئی ۔ یہ واضح تھا کہ خسارے میں چلنے والی صنعتیں نجی شعبے میں منتقل کرنے کی ضرورت تھی۔ تاہم موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے والے افراد نے ایسی کوششوں کی مخالفت کی۔ واپڈا کی مثال یہ نکتہ واضح کرتی ہے ۔ بجلی کی پیداوار (ہائیڈل کے علاوہ)، تقسیم اور ترسیل کنندہ کمپنیاں بہت پہلے نجی شعبے میں منتقل کی جانی تھیں۔ تاہم، انتظامی بورڈز میں پیشہ ور افراد شامل کرنے کے بہانے عوامی فنڈز کا نقصان اور بڑھتا ہوا گردشی قرضہ جاری رہا۔ نجکاری کا عمل مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ مارگریٹ تھیچر نے، جو 1979 ء سے 1990ء تک برطانیہ کی وزیر اعظم رہیں، عزم راسخ کے ساتھ 1948 میں قومیائی گئی صنعتیں نجی شعبے میں منتقل کر دیں۔ انہیں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر ان کے ارادے متزلزل نہیں ہوئے۔ بجلی کی پیداوار کے یونٹس، رائل میل، اور برٹش گیس نجی شعبے میں منتقل ہوئیں۔ انہوں نے اپنے جانشین کے دور میں برٹش ریلز کی نجکاری ممکن بنائی۔ اسی طرح، ترکی کے صدر ترگت اوزال نے، جو ایک ٹیکنوکریٹ تھے اور جنہیں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی، زیادہ تر صنعتیں نجی شعبے میں منتقل کردیں اور سرکار کیلئےمخصوص شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے دروازے کھول دیئے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں گزشتہ برس تک، اقتصادی ایجنڈے پر اتفاق رائے کے فقدان ہٹ دھرم یونینوں کی موجودگی اور اعلیٰ عدلیہ کا اقتصادی معاملات میں لاپروا رویہ نجکاری کیلئے ایک تاریک تصویر پیش کرتا تھا۔ وزارت خزانہ کے تخمینوں کے مطابق، جو 2023ء کے آخرمیں جاری کیے گئے ، گزشتہ پانچ سال میں ریاستی ملکیتی اداروں کے مجموعی نقصانات ساڑھے پانچ کھرب روپے سے زیادہ تھے ۔ عوامی خزانے کا یہ بڑا نقصان روکنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن یکایک افق پر نئے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ پانچ سالہ منصوبہ زیر غور ہے ۔ پی آئی اے، انشورنس کمپنیوں، یوٹیلیٹی اسٹورز، اور ریاستی ملکیت کے انجینئرنگ اور صنعتی یونٹس کی نیلامی کا پروگرام بنایا گیا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی معیشت میں بجلی کی تقسیم کے شعبے کی نجکاری سے گردشی قرضے ختم ہونے کی امید پیدا ہوچلی ہے۔