میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تلخ حقائق بیان کرنے کا بہترین ذریعہ کہانیاں، افسانے اور مزاحیہ پروگرام ہیں۔ چند دن پہلے جیوٹی وی پر ایک مقبول مزاحیہ پروگرام ”ہنسنا منع ہے‘‘ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ کمپیئر نے مطالعہ پاکستان کے اُستاد سے پوچھا ’’کیا آپ کو یقین ہے کہ جو آپ پڑھا رہے ہیں وہ سچ ہے؟‘‘ اُستاد نے جواب دیا، ’’میں اسٹوڈنٹس سے کہا کرتا ہوں کہ پاک اسٹڈیز میں صرف ایک ہی بات سچ ہے کہ میدانی علاقوں میں سخت گرمی اور سخت سردی پڑتی ہے۔‘‘ پروفیسر کے جواب کو بھرپور داد ملی۔ ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ تمام حاضرین اِس بات پر متفق نظر آئے کہ مطالعہ پاکستان کی نصابی کتب میں حقائق کو مسخ کیا جاتا ہے۔ اس دل خراش حقیقت کے اعتراف پر مجھے اس پروگرام کا عنوان ”ہنسنا منع ہے“ مناسب نظر آیا۔ عزیز قارئین! ایسا کیوں ہے؟ درسی کتب میں غلط بیانی کب اور کیسے شروع ہوئی؟ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کیلئے ، نصاب اور نصابی کتب کی تاریخ کا جائزہ لینا ہوگا۔ انگریز حکومت سے پہلے برصغیر میں ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی عبادت گاہوں سے منسلک تعلیمی ادارے قائم تھے۔ غیر ملکی حکمران، نظام تعلیم کے حوالے سے کسی تنازع میں الجھنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے اسکول اور کالج قائم نہیں کئے۔ پنجاب کی مثال لے لیں۔ پورے صوبے میں انگریز حکومت نے صرف لاہور میں سینٹرل ماڈل ہائی اسکول اور گورنمنٹ کالج بنایا۔ مقصد تھا کہ ہندوستانیوں کو تربیت دیں کہ درس گاہیں کیسی ہونی چاہئیں۔ مقامی حکومتوں کا نظام قائم ہوا تو اُن کے فرائض میں شامل تھا کہ وہ شہریوں کے بچوں کو تعلیم دینے کیلئے اسکول بنائیں۔ اسی طرح انگریز حکومت نے مذہبی اور سماجی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی۔ ہندوؤں ،سکھوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کی تنظیموں نے اپنے اراکین سے چندہ جمع کر کے تعلیمی ادارے بنائے۔ محکمہ تعلیم نے اسکول ایجوکیشن کے حوالے سے پانچویں، آٹھویں اور دسویں جماعت (میٹرک) کیلئے امتحان کا طریقہ وضع کیا۔
چونکہ ہر مذہب کے پیروکار، سماجی نظریات اور تاریخ کو اپنی مخصوص سوچ کے حوالے سے پرکھتے تھے، غیر ملکی حکمرانوں نے مطلوبہ تعلیمی استعداد کا معیار تو مقررکیا، مگر نصابی کتب ترتیب نہیں دیں۔ پالیسی تھی کہ نصابی کتب کوئی بھی مرتب کر سکتا ہے۔ محکمہ تعلیم صرف یہ جانچ کرے گا ان میں شائع ہونے والا مواد مقررکردہ نصاب کے مطابق ہو، کسی مذہبی گروہ کی دل آزاری کا باعث نہ بنے اور حقائق کو مسخ نہ کیا جائے۔ طالبعلموں کو اچھا شہری بنانےکیلئے قانون کا احترام سکھایا جائے۔ امتحانوں کا اہتمام البتہ حکومت کے ذمے تھا اور کامیاب طالبعلموں کو سرٹیفکیٹ اور اگلے درجوں میں تعلیم کیلئےوظائف دیئے جاتے ۔ اُن دنوں میٹرک کا امتحان پنجاب یو نیورسٹی لیتی تھی۔
انگریز دور میں ،صوبائی حکومتوں نے 1937ء کے بعد تعلیمی ادارے قائم کیے۔ اس کے علاوہ نظام تعلیم میں پاکستان بننے کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ نصابی کتب کے حوالے سے انگریز حکومت کی پالیسی قائم رہی۔ ہر درجے کیلئے نصابی کتب بازار میں دستیاب ہوتیں ۔ ہیڈ ماسٹر کی ذمہ داری تھی کہ وہ حکومت کی منظور شدہ کتابوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔ اُس زمانے کی نصابی کتب میں توجہ اس بات پر مرکوز کی جاتی کہ طالبعلم اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے، اچھائی اور بُرائی میں تمیز کرنے کے قابل ہو۔ طالب علم کو مختلف مذاہب کی روح سے روشناس کروایا جاتا اور انسان دوستی کی تعلیم دی جاتی۔ مقصد تھا کہ برداشت، درگزر اور عفو کے درس سے طالبعلم کا ذہن انتہا پسندی سے دُور رکھا جائے۔ اس پالیسی میں تبدیلی ایوب خان کے دور سے شروع ہوئی۔ مارشل لا کو جواز دینے کیلئے ضروری تھا کہ سیاستدانوں کو بدعنوان اور نااہل ثابت کیا جائے۔ سرکاری ملازمین کو وضاحت کا موقع دیئے بغیر گھر بھیجنے کے عمل کو درست ثابت کرنے کیلئے اُن کی کرپشن اور سیاستدانوں سے گٹھ جوڑ کی کہانیوں کو فروغ دینا بھی مقصود تھا۔ بد قسمتی سے پالیسی سازوں نے اپنے پروپیگنڈے کیلئے اسکول کے طالب علموں کو بھی اپنی مہم کا نشانہ بنالیا۔ عملدرآمد کیلئے نصاب ترتیب دینے کی ذمہ داری وفاقی حکومت نے اُٹھالی۔ صوبوں میں ٹیکسٹ بک بورڈ قائم کیے گئے ۔ حکومت کی پالیسی کے مطابق نئی نصابی کتب لکھوائی گئیں اورتعلیمی اداروں میں کسی اور کتاب سے تعلیم دینا فوجداری جرم ٹھہرا، جس کی سزا استاد کو دو سال تک جیل بھجوا سکتی تھی۔ حکمرانوں نے نصابی کتب میں اپنی مرضی کا مواد شامل کیا تو دوسرے طاقتور گروہ بھی میدان میں آگئے۔ انہوں نے اپنے نقطہ نظر کا پرچار کرنےکیلئے نصابی کتب میں تبدیلیاں چاہیںمقصد تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے طالب علموں کی ذہن سازی کی جائے۔ بیشتر قارئین انگریزی زبان کی اصطلاح برین واشنگ سے واقف ہوں گے جسے اُردو میں ذہنی غسل کہا جا سکتا ہے۔ اپنے نونہالوں کی سوچ کو ایک خاص سانچےمیں ڈھالنے کیلئے ہم نے ذہنی غسل کا عمل نصابی کتابوں سے شروع کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر کے کے عزیز نے تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل ایک کتاب بعنوان The Murder of History (تاریخ کا قتل) لکھی۔ یہ دستاویز نصابی کتب میں درج مسخ شدہ تاریخی حقائق کی تفصیل بیان کرتی ہے۔ کے کے عزیز کے علاوہ پروفیسر ہود بھائی اور بہت سی این جی اوز نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے۔ سابق سیکرٹری تعلیم کی حیثیت سے اور بہت کچھ لکھ سکتا ہوں، مگر کالم کے محدود دامن میں گنجائش نہیں۔ دُعا ہے کہ معصوم ذہنوں میں مخصوص نظریات ٹھونسنے کی بجائے، ہم طالبعلموں کو اعلیٰ انسانی اقدار، برداشت اور رواداری کی تعلیم دیکر، انتہا پسندی اور منافرت سے دُور رکھنے کی کوشش کریں۔