راولپنڈی(راحت منیر/اپنے رپورٹرسے) لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس جواد حسن نے آوارہ کتوں کو مارنے سے روک دیا۔ جسٹس جواد حسن نے قرار دیا کہ چونکہ کیس عوامی اہمیت کا ہےاس لئے سی پی سی آڈرزXXVII-Aکے تحت خصوصی نوٹس بھی جاری کررہے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رٹ میں اٹھائے گئےقانونی نکات کا بھی جواب دیں۔عدالت عالیہ نے ضلع کونسل راولپنڈی،محکمہ وائلڈ لائف سمیت دیگر کو نوٹس جار ی کرتے ہوئے24دسمبر تک پیراوائز کمنٹس اور رپورٹس طلب کرلیں۔انیلہ عمیر وغیرہ نے التمش سعید اور احمد شعیب بھٹہ ایڈووکیٹس کے ذریعے دائر رٹ میں موقف اختیار کیا کہ راولپنڈی میں کتوں کو مارنے کا آپریشن کیا جارہا ہے یہ دیکھے بغیر کونسا کتا اچھا اور کونسا برا ہے۔یہ انیمل ایکٹ1890کی سیکشن5کی خلاف ورزی ہے۔چیف آفیسر ضلع کونسل نے کتوں کو مارنے کیلئے باقاعدہ ٹینڈر جاری کیا ہےجو غیر اسلامی و غیر اخلاقی ہے۔کتوں کو مارنے کیلئے زہر اور شوٹنگ کی جارہی ہے۔مجاز حکام کو کئی درخواستیں دی کہ معصوم جانوروں(کتوں)کو غیر ضروری طور پر ہلاک نہ کیا جائےجس پر جواب دیا گیا کہ آوارہ کتے لوگوں کو کاٹتے ہیں۔حکومت کتوں کو مارنے کے علاوہ بھی دیگر اقدامات اٹھا سکتی ہے۔آوارہ کتوں کے کاٹنے کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہےلیکن پنجاب اینیمل ہیلتھ ایکٹ، 2019 کے سیکشن 16 کی زیلی دفعہ سی کے تحت جانوروں کے ساتھ نارواسلوک کو روکنا بھی حکومت کی زمہ داری ہے۔عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ یہاں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ 1890 ایکٹ اور1924 کاایکٹ جانوروں پر ظلم کے معاملے میں کتنے معاون ہیں۔جانوروں کے فلاح و بہبود کے حقوق کو آئین کے ساتھ منسلک کرنے کے نکتہ کی مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔عدالت عالیہ کاآئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اختیار صرف انسانوں تک محدود نہیں،بلکہ اس کادائرہ مظلوموں کی داد رسی ہے۔