کراچی (ٹی وی رپورٹ) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی محمد علی نے کہا ہے کہ بہت سی آئی پی پیز غلط کاموں میں ملوث ہیں، آئی پی پیز نے معاہدے کی شرائط پوری نہیں کیں، آڈٹ ہونا چاہیے۔
2002اور 1994کے تحت قائم کی گئی 18 آئی پی پیز میں سے15نے نظر ثانی شدہ معاہدوں پر دستخط کر دیئے، ان معاہدوں سے حکومت کو 800ارب روپے کی بچت ہوگی، بجلی مہنگی ہونے کی ایک وجہ8روپے یونٹ ٹیکس بھی ہے، ٹیکس میں کمی لازمی ہے،کوشش کررہے ہیں ٹیکس3 روپے پر لے آئیں، ایک لاکھ 20ہزار کروڑ روپے قوم بند پلانٹس کو دےرہی تھی،جتنی زائد ادائیگی ہوئی اسے ریکور کررہےہیں، بجلی مہنگی ہونے کی ایک وجہ8 روپے فی یونٹ ٹیکس بھی ہے،آئی پی پیز نمائندوں کا کہنا تھا کہ آڈٹ سے انکار کیا نہ مزاحمت کی، بجلی کمپنیاں فرانزک آڈٹ پر تیار ہو جائینگی۔
سابق نگراں وزیر گوہر اعجاز نے کہا عوام پر مہنگی بجلی کا بوجھ غلط معاہدوں کی وجہ سے ہے،آئی پی پیز کیپسٹی کی مد میں صارفین سے 29.70 روپے فی یونٹ سے لیکر 80 روپے فی یونٹ چارج کر رہی ہیں،کیا ملک اتنے زیادہ ٹیرف کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے؟
آئی پی پیز نے60 کروڑ کا پلانٹ 120 کروڑ میں لگادیا، ایک لاکھ 20 ہزار کروڑ روپے قوم بند پلانٹس کو دےرہی تھی۔
سابق سی ای او حبکوخالد منصور نے کہا ہم نے اجتماعی طور پر کبھی نہیں کہا کہ ہمارا فرانزک آڈٹ نہ کریں،حکومت چینی حکام سے قرض کی ادائیگی کی مدت کو 10 سے بڑھا کر 20 سال کرنے کی کوشش کرے، کھپت نہ بڑھنے کی وجہ سے ٹیرف بڑھ گیایہ کہنا زیادتی ہوگی کہ سب آئی پی پیز نے چوری کی اور پیسہ کمایا، سی ای او لکی الیکٹرک پاورروحیل محمد کہا جس نے غلط کام کیا ریاست اسے سبق سکھائے، جو آئی پی پیز غلط کام کررہی ہیں ان کا فرانزک ضرور ہونا چاہئے۔
سابق چیئرمین اپٹما،آصف انعام نے کہا بری معاشی کارکردگی آئی پی پیز کی وجہ سے ہے،معاشی ماہر عمار حبیب خان نے کہا اضافی بجلی نیلام کردیں، صنعت لگائیں اور انہیں کم قیمت بجلی دیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کی پاور سیکٹر سے متعلق مسائل اور انکے حل کی تجاویز کیلئے خصوصی نشریات ’آخری موقع پاکستان کیلئے کر ڈالو‘ میںگفتگو کرتے ہوئے کیا۔
پروگرام کی میزبانی سینئر صحافی و تجزیہ کار شاہ زیب خانزادہ نے کی۔معاون خصوصی توانائی محمد علی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کئی شعبو ں نے بہت پیسے کمائے ہیں نام صرف آئی پی پیز کا لیا جاتا ہے، آئی پی پیز سیکٹر میں آڈٹ نہ ہونے کا مسئلہ رہاہے،ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر بات کررہے ہیں، آئی پی پیز کو قرض لیکر پلانٹ لگانے کی اجازت نہیں تھی، آئی پی پیزمیں بہت غلط کام ہوئے ہیں۔ میں کہا تھا کہ معاملہ مصالحت کاری سے میں نہیں جانا چاہئے، آئی پی پیزکا معاملہ مصالحت کاری میں چلا گیا،4 سال وہیں پڑا رہا، چار سال سے مصالحت کاری نہیں ہوئی ہم اس معاملے کو حل کررہے ہیں، جتنی زائد ادائیگی ہوئی اسے ریکور کررہے ہیں۔
آئی پی پیز نے پیسے اسٹاک ایکسچینج میں لگائے اربوں روپے کمائے، نیپرا نے آڈٹ کی بات کی تو اسے کیوں نہیں کرنے دیا گیا۔
یپرا کو آڈٹ کرنے نہیں دیا ، آئی پی پیز نے اسٹے آرڈر لیا،آئی پی پیز کے معاہدوں اسلئے دوبارہ دیکھنا پڑیگاکہ جو ٹرمز آفر ہوئے وہ فالو نہیں ہوئے۔ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں بینکوں، فرٹیلائزر، شوگر،فارما، فوڈ نے بہت پیسے کمائے ہیں۔ انکے ساتھ کوئی معاہدہ یا کوئی ایسی بات نہیں ہوئی تو بار بار ہم آئی پی پیز کی طرف کیوں جاتے ہیں۔
ریگولیٹرز کو آئی پی پیز کے اکاؤنٹس اور آپریشنز کو دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی اس وجہ سے بار بار ہم اس طرف جاتے ہیں۔
آئی پی پیز کے آڈٹ نہیں ہوئے ۔ ان کوایندھن کی مدت کی زائد ادائیگیاں ہوئیں۔ یہ چیزیں درست کرنے کی ضرورت تھی، پہلے2021ء میں اس پر کام ہوا اور اب پھر کوشش کی جارہی ہے۔محمد علی نے کہا کہ آئی پی پیز کی15فیصد آمدنی کی خبر درست نہیں،آئی پی پیز نے 80فیصد تک کمائے ہیں۔
آئی پی پیز کا آڈٹ نہ ہونے کی ذمہ داری حکومت کی طرف ہے۔ نیپرا کی ہے وہ انکی قیمت کی تصدیق کرتا اور ان کا آڈٹ کرتا، مگر نیپرا نے نہیں کیا۔ایک انکوائری کمیٹی آرڈہو ، انکوائری کہ گزشتہ دس سالوں میں حکومتی اداروں نے کیا کیا غلط کام کیا۔
آئی پی پیز کو ادھار لیکر مزید پلانٹس لگانے کی اجازت نہیں تھی۔ کچھ آئی پی پیز نے ادھار لیکر ہاؤسنگ سوسائٹیز سیٹ کی ہیں۔
فیول کی مد میں زیادہ ادائیگیاں ہوئی ہیں۔ یہاں بہت کچھ غلط کیا گیا ہے۔ابھی تک ہم نے پانچ آئی پی پیز معطل کی ہیں۔وہ پلانٹس جو بند تھے ان کو سالانہ5 تا 30 ارب ادائیگیاں کی جاتی تھیں ہم نے دو ماہ قبل وہ بند کروائیں۔
اس سے پاکستان کومستقبل میں400 ارب کا فائدہ ہوا۔ابھی ہم جن 18 پلانٹس سے بات چیت کررہے ہیں ان سے آنے والے وقتوں میں ملک کو800 ارب کا فائدہ ہے۔
بجلی مہنگی ہونے کی ایک وجہ8 روپے یونٹ ٹیکس بھی ہے۔کوشش کررہے ہیں ٹیکس3 روپے پر لے آئیں۔انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا کام نہیں کرینگے جس سے آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی ہو۔
توانائی کا گردشی قرضہ ہم ختم کرلیں گے، پیٹرولیم کا بعد میں دیکھیں گے۔ہمیں بجلی کے کارخانے حکومت کے ہاتھ سے نکال کر نجی شعبے کو دینا پڑیں گے۔ان مسائل کا حل لانگ ٹرم میں ہوگا۔ہمیں پرائیویٹ شعبے کو سارے کام دینا پڑیں گے یہ حکومتی کام نہیں۔ہماری بجلی زیادہ فروخت ہوگی تو کیپسٹی آمدنی بڑھے گی اور ملک کو بھی فائدہ ہوگا۔
سابق سی ای او حبکوخالد منصور نے کہا کہ آئی پی پیزنے کبھی رد عمل نہیں دیا کہ ہمارا آڈٹ نہ کریں، آئی پی پیز سے جتنا ریکارڈ مانگا گیا انہوں نے پیش کردیا، سب سے اہم بات یہ تھی کہ ملک کیلئے کچھ کرنا ہے ۔جو کچھ کرنے جارہے ہیں اس کا فائدہ کیا ہوگا،صارفین کیلئے ٹیرف کتنا کم کرسکیں گے۔
حکومت کا کام طویل المدتی منصوبہ بندی کرنا ہوگا۔ کھپت نہ بڑھنے کی وجہ سے ٹیرف بڑھ گیا۔کہ کہنا زیادتی ہوگی کہ سب آئی پی پیز نے چوری کی اور پیسہ کمایا۔
سابق نگراں وزیر گوہر اعجاز نے کہا کہ کیپسٹی ادائیگی2لاکھ کروڑ روپے سالانہ دے رہے ہیں۔پچھلے سے سالانہ اوسطاً12 ہزار میگا واٹ بجلی استعمال ہوئی ہے۔نیو کلیئر انرجی سے بجلی86 فیصد آرہی ہے۔