اسلام آباد (عمر چیمہ) اگرچہ پاکستان اور بھوٹان نے اپنی معیشتوں کو فروغ دینے کیلئے ایک ساتھ کرپٹو مائننگ کا آغاز کیا تھا لیکن بھوٹان اس معاملے میں آگے نکل چکا ہے جبکہ پاکستان آگے بڑھنے میں ناکام رہا۔ اس وقت کرپٹو مائننگ میں بھوٹان کا نام امریکا، چین، برطانیہ اور یوکرین کے بعد پانچویں سب سے بڑے ملک کی حیثیت سے سامنے آیا ہے اور اس کے بٹ کوائن کے ذخائر اس کی جی ڈی پی کا 35؍ فیصد حصہ ہیں۔ 2020ء میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے بٹ کوائن کی مائننگ کے ذریعے آمدنی کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس کا تصویر وقار ذکاء اور غلام احمد رومی نامی دو کرپٹو ماہرین نے پیش کیا تھا۔ وزیراعلیٰ کے سائنس و ٹیکنالوجی کے مشیر ضیاء بنگش نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔ شانگلہ میں دو آپریشنل مائننگ فارمز چلانے والے روُمی نے انہیں پائلٹ پروجیکٹ میں استعمال کرنے کی پیشکش کی تھی۔ خیبر پختونخوا ایسے پروجیکٹ کیلئے ایک مثالی مقام ہے کیونکہ یہاں وافر آبی ذخائر کرپٹو مائننگ کیلئے ضروری بجلی کی وافر مقدار پیدا کر سکتے ہیں۔ ایک حکومتی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کے پی میں (پن بجلی) آبی ذخائر سے اندازاً 30؍ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ کرپٹو کرنسی کی مائننگ میں ایسے طاقتور کمپیوٹرز کا استعمال ہوتا ہے جنہیں چلانے کیلئے بہت زیادہ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹرانزیکشن کی ویلیڈیشن کے عوض مائننگ کا کام کرنے والوں کو کرپٹو کرنسی کا سکہ ملتا ہے جو زبردست آمدنی کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ پروجیکٹ خیبر پختونخوا کیلئے ایک منافع بخش (لائف لائن) منصوبہ ثابت ہو سکتا تھا کیونکہ صوبہ پہلے ہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے معاملے میں مسائل کا سامنا کر رہا ہے جبکہ دہشت گردی کی وجہ سے اس کی سیاحت کی صنعت بھی زوال پذیر ہے۔ پروجیکٹ پر پیشرفت کیلئے دسمبر 2020ء میں صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد منظور ہوئی جس میں عمران خان کی زیر قیادت وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ کرپٹو کرنسیز کے حوالے سے قانون سازی کی جائے۔ سفارشات کا مسودہ تایر کیا گیا اور فروری 2021ء میں بنگش کی قیادت میں کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں صوبائی مالیاتی ماہرین اور کرپٹو ماہرین شامل تھے۔ تاہم، حالات کچھ اس انداز سے تبدیل ہوئے کہ پروجیکٹ پٹری سے اتر گیا۔ بل کا مسودہ صوبائی کابینہ میں پیش ہونے سے قبل بنگش کو وزیراعظم آفس سے فون آیا کہ اس پروجیکٹ پر مزید کام نہ کیا جائے۔ اس صورتحال پر بنگش نے احتجاجاً استعفیٰ دیدیا۔ دی نیوز سے بات چیت میں انہوں نے تصدیق کی کہ انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے رکاوٹیں ڈالنے کی وجہ سے استعفیٰ دیا تھا۔ اسی دوران، دائرہ اختیار نہ ہونے کے باوجود ایف آئی اے والوں نے روُمی کے مائننگ فارم پر چھاپہ مار کر ساز و سامان ضبط کر لیا۔ بنگش کا کہنا تھا کہ 300؍ سے زائد بیرون ملک پاکستانیوں نے کرپٹو مائننگ میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے بشرطیکہ مناسب قواعد و ضوابط موجود ہوں۔ حتیٰ کہ بین الاقوامی میڈیا نے بھی خیبرپختونخوا کی بصیرت کو میڈیا میں پیش کیا۔ حکومت کی فالو اپ کمیٹی غیر موثر ثابت ہوئی جس سے پاکستان کے کرپٹو کرنسی کے حوالے سے عزم کو نقصان ہوا۔ جس وقت پاکستان کو اس پروجیکٹ میں ٹھوکر لگی، اس وقت بھوٹان خاموشی سے آگے بڑھتا رہا۔ بھوٹان میں ڈروک ہولڈنگ اینڈ انوسٹمٹس (ڈی ایچ آئی) نے کرپٹو مائننگ میں پہل کی، ملک نے 23؍ ہزار 760؍ میگاواٹ کی صلاحیت کے وافر پن بجلی کے وسائل سے فائدہ اٹھایا، بڑے پیمانے پر بٹ کوائن کی مائننگ کی اور جب کورونا وائرس کی وجہ سے بھوٹان میں سیاحت کم ہوگئی تو ملک نے کرپٹو کے ذریعے اپنی آمدنی کے وسائل میں تنوع پیدا کیا۔ 2021ء میں بھوٹان نے اپنے ڈیجیٹل اثاثہ جات میں سرمایہ کاری کی اور اب صورتحال یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کیلئے کچھ حصہ نکالنے کے باوجود آج بھوٹان کے بٹ کوائن ہولڈنگ کی مالیت 1.2؍ ارب ڈالرز ہے۔ بھوٹان کا ارادہ ہے کہ وہ سنگاپور کے ساتھ مل کر اپنی مائننگ کی صلاحیت کو 600؍ میگاواٹ تک لیجائے اور اس کیلئے وہ بِٹ ڈیئر کمپنی کے ساتھ شراکت داری چاہتا ہے۔ ڈی ایچ آئی سے بھوٹان کو اس کی جی ڈی پی کا 25؍ فیصد حصہ ملتا ہے اور اب یہ کمپنی اے آئی، میٹاورس اور بلاک چین سمیت دیگر ابھرتی ٹیکنالوجیز میں کام کر رہی ہے۔