کراچی(اسٹاف رپورٹر)عملے،گاڑیوں اور اسلحہ نہ ہونے کے سبب سندھ بھر میں لائسنس یافتہ افراد کے علاوہ بااثر افراد جن میں بڑے سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں، بڑےپیمانے پر ہجرتی پرندوں کا غیرقانونی شکار کررہے ہیں، سندھ کے بیشترعلاقوں لاڑکانہ، بدین، قمبرشہدادکوٹ، سکھر اوردیگر شہروں میں ان پرندوں کی کڑاہی بھی فروخت ہورہی ہے جبکہ منوڑا، ملیر، ابراہیم حیدری کے علاقوں میں بھی سمندر سے خوراک کی تلاش میں آنے والے ان پرندوں کو شکار کیاجارہا ہے، ان پرندوں کے علاوہ ہرن، آئی بیکس بھی شکار کئے جارہے ہیں۔ پاکستان آنے والے مہاجرپرندے جس فضائی راستے کو اختیار کرتے ہیں، اسے انڈس فلائی وے، گرین روٹ کہاجاتا ہے۔ اسے انٹرنیشنل مائیگریشن روٹ نمبر 4 بھی کہتے ہیں۔ مہاجرپرندے پاکستان کے طول وعرض میں موجود چھوٹی بڑی آب گاہوں اورصحراؤں میں پڑاؤ ڈالتے ہیں، جو ہمالیہ سے لے کر ساحل سمندر پر موجود تیمرکے جنگلات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ملک میں وسطی ایشیاء، مغربی یورپ، مشرقی سائبیریا اورروس سے مہاجرپرندے آتے ہیں، جن کی آمد اب زیادہ تر نومبر میں شروع ہوتی ہے اور مارچ میں واپسی کا سفر شروع ہوجاتا ہے، پہلے یہ آمد اکتوبر میں شروع ہوجاتی تھی لیکن کلائمیٹ چینج کی وجہ سے پرندوں کی ہجرت کے رحجانات میں بھی تبدیلی واقع ہورہی ہے اور ماہرین کے مطابق پاکستان میںمہاجرپرندوں کے قیام کے دورانیہ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں پرندوں پر کام کرنے والی سب سے مستند شخصیت ٹی، جے رابرٹ کے مطابق پاکستان میں پرندوں کی 668 اقسام پائی جاتی ہیں۔جبکہ جامعہ پنجاب کے شعبہ زولوجی کےپروفیسر ڈاکٹرذوالفقار علی کے مطابق، ملک میں مہاجر پرندوں کی 380 اقسام آتی ہیں۔