• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ کالم میں پی ٹی آئی کے ایک مخلص حامی سے گفتگو کا ذکر تھا۔ جب اُنہوں نے سُنا کہ ایک امریکی صدر نے قیدی کی رہائی کیلئےخط لکھا تھا ، تو بے صبری سے پوچھا، ’کس امریکی صدر نے رابطہ کیا تھا؟ فون کیا تھا یا خط لکھا۔ قیدی کس ملک کا تھا ؟ اس کا جرم کیا تھا؟ ‘تابڑ تو ڑسوال سُن کر جواب دیا، یہ باتیں اہم نہیں ، تم پوچھو کہ امریکی صدر کی بات مانی گئی تھی یا نہیں ؟ انہوں نے انگشت شہادت میرے چہرے کے سامنے نچاتے ہوئے کہا، پاکستان کے حوالے سے صدر ٹرمپ کو صرف عمران خان کا نام یاد ہو گا۔ دونوں کے درمیان دوستی ہے۔ تم جذبات سے عاری ہو کر تجزیہ نہ کرو۔ پاکستانی وزیر بھی یہی غلطی کرتے ہیں۔ اُنکا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ نے رابطہ کیا تو صرف امریکی مفاد سامنے رکھیں گے۔ وہ دونوں لیڈروں کے ذاتی تعلق کو اہم نہیں سمجھتے۔ وثوق سے کہا، ’’خط لکھیں یا فون کریں، اُن کا پیغام سخت ہوگا‘‘۔ ہمارے لیڈر کو غیر مشروط طور پر رہا کرنا پڑےگا۔اُن کی جذباتی گفتگوسن کر میں خاموش ہو گیا۔ چند لمحے سوچنے کے بعد اُنہوں نے کہا، وہ بات تو درمیان میں رہ گئی ۔ کس امریکی صدر نے خط لکھا تھا اور قیدی کون تھا ؟ میں نے کہا، 'امریکی صدر کلنٹن نے ایک قیدی کی رہائی کیلئے خط لکھا تھا۔ اس واقعہ میں ہمارے ملک کیلئےبہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔ میں نے قصہ بیان کیا۔ یہ کہانی ایک امریکی گھرانے سے شروع ہوتی ہے۔ میاں بیوی کے درمیان طلاق ہوئی۔ بیوی دوسری شادی کے بعد، نئے شوہر کے ساتھ سنگا پور رہنے لگی۔ پہلے شوہر سے اُس کا نوجوان بیٹامائیکل فے بھی ماں کیساتھ رہتا تھا۔ امریکن اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران، سنگاپور پولیس نے اُسے دوسرے نوجوان مقامی ساتھیوں کے ہمراہ گرفتار کر لیا۔ مائیکل اور اُس کے ساتھی پر پہلا الزام تھا کہ انہوں نے سڑکوں پر نصب ، ٹریفک کے سائن بورڈ چُرائے ۔ دوسرا الزام تھا کہ پارک کی ہوئی کاروں پر انڈے پھینکے اور اسپرے پینٹ سے نقش و نگار بنائے۔ دونوں جرم 1964ء کے قانون کی زد میں آتے تھے۔ گرفتاری کے بعد ، مائیکل نے اقرار ِجرم کیا۔ اُسے چار ماہ قید، 2300امریکی ڈالر اور چھ بید کی سزا ملی۔ ساتھی نے اقرار جرم نہیں کیا۔ اُس کی سزا زیادہ سخت تھی۔ یہ قصہ امریکی میڈیا میں رپورٹ ہوا تو طوفان کھڑا ہو گیا۔ قید اور جرمانے کی حد تک اعتراض نہیں تھا۔ بید لگانے کی سزا امریکی رائے عامہ کیلئے قابل قبول نہ ہوئی۔ تمام بڑے اخبار نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، لاس اینجلس ٹائمز اور یوایس اے ٹوڈے متحد ہو گئے ۔ انہوں نے بڑھ چڑھ کر بید کی سزا کو وحشیانہ اور ظلم پرمبنی قرار دیا۔ اپنے قارئین کو بید لگانے کے عمل کی تفصیل بتاتے ہوئے پاکستان میں کوڑے لگانے کی سزا کا ذکر بھی ہوا۔ لکھا کہ بید لگانے والا ضرب میں زور ڈالنے کیلئے کچھ قدموں کا اسٹارٹ لیتا ہے۔ ننگی پیٹھ پر بید کی ضرب سے جلد کے چیتھڑے اُدھڑ جاتے ہیں۔ سنگا پور میں امریکی سفارت خانے نے بھی بید کی سزا پر سخت بیان جاری کیا۔ لکھا کہ ا سپرے پینٹ سے کاروں پر لگے داغ اور توڑ پھوڑ کی مرمت تو ہو جائے گی ، مگر بید کی سزا ، قیدی کے ذہن پر ایک مستقل نقش کی صورت موجود رہے گی۔ میڈیا کے کرم فرماؤں نے امریکی شہریوں اور حکومت کو مشورہ دیا کہ سنگا پور سے تجارتی بائیکاٹ کیا جائے۔ اگر سنگا پور حکومت مائیکل کی سزا معاف نہیں کرتی تو امریکی تجارتی اور کاروباری ادارے، سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیں ۔ میڈیا کی اس مہم میں سیاست دان بھی شامل ہو گئے ۔ امریکی سینٹ کے دو درجن اراکین نے سنگا پور کی حکومت کو خط لکھا کہ مائیکل کو دی گئی بید کی سزا معاف کر دی جائے۔ امریکی صدر بل کلنٹن پر دباؤ بڑھا تو وہ بھی اس مہم میں شریک ہو گئے۔ اُنہوں نے سنگا پور کی حکومت کو سرکاری طور پر خط لکھا۔ درخواست کی کہ مائیکل فے کو بید نہ لگائے جائیں۔

سنگا پور حکومت کے مرد آہن لی کو آن یو کیلئے مشکل فیصلے کی گھڑی تھی۔ چھوٹے سے ملک کی ترقی کا انحصار، امریکی سرمایہ کاری اورتجارت پر تھا۔ دوسری طرف انہیں اپنے ہم وطنوں میں یہ احساس بھی برقرار رکھنا تھا کہ اُن کا ملک غیر ملکی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا۔سوچ بچار کے بعد، اعلامیہ جاری ہوا کہ سنگا پور، امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کی بہت قدر کرتا ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر، امریکی صدر کی اپیل پر سنگا پور کی حکومت نے مائیکل کی سزا، چھ بید سے کم کر کے چار بید کردی ہے۔ ساتھی ملزم کی سزا میں بھی اُسی تناسب سے کمی کی گئی۔ سزا میں کمی کا اعلان ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ہوا۔ سنگا پور کے وزیر نے سزا میں کمی کی تفصیل بتائی تو ایک صحافی نے کہا کہ دو بید کم کرنے کی بجائے پوری سزا ہی معاف کر دینا چاہئے تھی ۔ وزیر کا جواب آج بھی ذہن پر نقش ہے۔ اُس نے کہا، ایسی صورت میں سیاسی قیادت اپنے حق حکمرانی سے محروم ہو جاتی۔ اس واقعے میں سنگا پور کی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ لی کو آن یو کے ملک کا نظام انصاف سخت گیر تھا اور اُس کا بلا تفریق نفاذ سنگا پور کے شہریوں کو قانون کی حکمرانی اور برابری کا احساس دلاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مائیکل فے کو بید لگائے گئے اور امریکی رائے عامہ نے اس سزا کو قبول کر لیا۔ امریکہ اور سنگا پور کے تعلقات بھی متاثر نہ ہوئے۔ مائیکل فے کی امریکہ واپسی پر اخباروں میں رائے عامہ کے جائزے سے علم ہوا کہ تقریباً پچاس فیصد امریکی شہری بھی اپنے معاشرے میں سخت اور بلا تفریق سزاؤں کا نفاذ چاہتے ہیں۔

میرے دوست نے یہ لمبی کہانی صبر سے سنی ۔ پھر کہا، ”امریکی صدر فون کریں، نہ کریں، ہمارے چیئر مین بے گناہ تھے ، بے گناہ ہیں اور بے گناہ ر ہیں گے۔ اس بارے میں کسی کو کوئی شک نہیں۔‘‘ اُنکے لہجے میں یقین اور اعتماد کی سچائی چھلک رہی تھی ۔

تازہ ترین