اسلام آباد (نمائندہ جنگ) سینئر جج کو چیف جسٹس بنایا جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ کیلئے کسی دوسری عدالت سے جج کو لانا آئین سے فراڈ ہوگا، سینیارٹی کیسے تبدیل ہوسکتی ہے، 3سینئر ججز میں سے چیف جسٹس بنانے کیلئے بامعنی مشاورت ضروری ہے، چیف جسٹس بنانے کیلئے ججز کے ایسے تبادلوں کی اجازت دی گئی تو آئین اور عدلیہ کی آزادی کیلئے تباہ کن ہو گا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے 8ججز نے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کو خط لکھ دیا، خط پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر کے نام بھی لکھے ہیں تاہم انکے دستخط موجود نہیں، یہ خط چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اسلام آباد ہائیکورٹ، لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کے نام لکھا گیا ہے جس کی نقل صدر آصف علی زرداری کو بھی بھجوائی گئی ہے۔ دوسری جانب چیف جسٹس سپریم کورٹ سے وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کی ملاقات کی اس موقع پر ججز کی تعیناتی کیلئے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز چیف جسٹس کیلئے دوسری ہائیکورٹ سے جج لانے کی ممکنہ کوشش پر بول پڑے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز نے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت تین ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو خط لکھا ہے کہ صدر کو ججز کے تبادلے کی ایڈوائس نہ دیں۔ چیف جسٹس بنانے کیلئے ججز کے ایسے تبادلوں کی اجازت دی گئی تو آئین اور عدلیہ کی آزادی کیلئے تباہ کن ہو گا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے جج لایا گیا تو یہ آئین کے ساتھ فراڈ ہو گا۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے ایک اور خط لکھ دیا جس پر سینئر ترین جج جسٹس محسن اختر کیانی ، جسٹس طارق محمود جہانگیری ، جسٹس بابر ستار ، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کے دستخط موجود ہیں۔ خط پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر کے نام بھی لکھے ہیں تاہم ان کے دستخط موجود نہیں۔ یہ خط چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اسلام آباد ہائیکورٹ ، لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کے نام لکھا گیا ہے جس کی نقل صدر آصف علی زرداری کو بھی بھجوائی گئی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ میڈیا میں دوسری ہائیکورٹ سے جج اسلام آباد ہائی کورٹ لانے کی خبریں رپورٹ ہوئی ہیں۔ بار ایسوسی اِیشنز کی جانب سے کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ سے ایک جج کو پہلے ٹرانسفر اور پھر چیف جسٹس کے طور پر زیرغور لایا جائے گا۔ سندھ ہائیکورٹ سے بھی ایک جج کے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلے کی تجویز زیر غور ہونے کی اطلاع ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ جج کے تبادلے کا عمل آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ہوتا ہے ، مگر یہ صدر مملکت کی چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں متعلقہ ہائیکورٹ کے ججز کی مشاورت کے تحت ہو سکتا ہے۔ ہم زور دیتے ہیں کہ صدر کو ججز کے ٹرانسفر کی ایڈوائس نہ دیں۔ 26ویں آئینی ترمیم میں قانون سازوں نے مستقل تبادلے کی اجازت نہیں دی۔