پشاور(ارشدعزیز ملک )عوامی نیشنل پارٹی کے بزرگ مرکزی رہنما غلام احمد خان بلور نے کہا ہے کہ 2013 میں جب عمران خان کوخیبرپختونخوا میں لانچ کیا گیا تو صوبے میں قیادت کا خلا موجود تھا اورکوئی انکو چیلنج نہیں کرپارہا تھا اسفندیار ولی گھر نہ بیٹھتے یا بٹھانہ د ئیے جاتے تو نتائج مختلف ہوتے ۔دہشت گردوں کے ذریعے دبائومیں لاکرسیاستدانوں کو گھر بیٹھانا اس ریاست کا وطیرہ ہے ، بھٹو عمران خان سے زیادہ مقبول تھے مگر ولی خان ، مفتی محمود اور خان قیوم نے انہیں خیبر پختونخوا میںجگہ نہیں دی ، ایمل ولی خان نے مجھے ملاقات کا وقت دیا نہ میرا فون اٹھایا، اے این پی میں قیادت اور ڈسپلن کا فقدان اور پک اینڈ چوز قیادت ہے، ضیا الحق نے ولی خان کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی ، بھارتی فلم سٹار شاہ رخ خان کے والد باچا خان کے ساتھی تھے مگر خان قیوم نے شاہ رخ خان کے والد اور ان کے رشتہ داروں کو جیل میں ڈال کر پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا، جنرل ضیا نے تہران میں شاہ ایران کے سامنے پاکستانی سیاست دانوں کے بارے میں توہین آمیز زبان استعمال کی ، ، بھٹو نے جنرل ضیا کو دھمکی دی تھی کہ اگر وہ انتخابات میں کامیاب ہوئے تو جنرل ضیا کیخلاف غداری کا مقدمہ چلائیں گے جس پر ولی خان نے مذاق کے انداز میں ضیا کو خبردار کیا کہ لاشیں دواورقبر ایک ہے اگر پہلے بھٹو کو دفن نہ کیا گیا تو ضیا قبر میں جائیں گے ، نواز شریف 1999 میں ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کے خواہاں تھے ، ۔یہ انکشافات غلام احمد بلور نے اپنی کتاب میں کیوں نہیں ٹوٹا میں کئے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ 2013 میں جب عمران خان کو خیبر پختونخوا سے لانچ کیا گیا تو صوبہ میں قیادت کا ایک خلا موجود تھا اس لئے کوئی ان کو چیلینج نہیں کرپا رہا تھا صرف اسفندیار ولی خان ہی ایسے لیڈر تھے جو اگر گھر نہ بیٹھتے یا بٹھا دیئے جاتے اور ہر ضلع کا دورہ کرتے تو نتائج مختلف ہوتے مگر دہشت گردوں کے ذریعے دباؤ میں لاکر انہیں گھر میں بٹھایا گیا، ولی خان پر پانچ حملے ہوئے اس کے باوجود وہ گھر نہیں بیٹھے جب جیل گئے تو ان کا خلا بیگم نسیم ولی خان نے پورا کیا ، غلام بلور لکھتے ہیں میں نے دو مرتبہ پارٹی کی مرکزی سینئر صدارت کیلئے کاغذات جمع کروائے مگر ایک دفعہ کہا گیا کہ آپ کی درخواست دیر سے موصول ہوئی ، دوسری مرتبہ بتایا گیا کہ ہم یہ عہدہ بلوچستان کو دینا چاہتے ہیں جب ایمل ولی مرکزی صدر منتخب ہوگئے تو میں نے کہا کہ آپ سے ضروری بات کرنی ہے تھوڑا سا وقت دے دیں انہوں نے کہا کہ میں کل خود آپ کے پاس آؤں گا آج تک وہ مجھ سے ملنے آئے اور نہ ہی میرا فون اٹھایا ، 1989 کی بات ہے اے این پی گورنر کی عدم تعیناتی پر مخلوط حکومت چھوڑ چکی تھی ایک دن وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے ولی خان اور مجھے ملنے کی دعوت دی ، ہم چلے گئے ولی خان کیساتھ بیگم نسیم بھی تھیں ،محترمہ بینظیر نے قومی اسمبلی کے اپنے چیمبر میں استقبال کیا ، کھانا کھانے کے بعد ولی خان نے پوچھا بی بی آپ نے ہمیں کس لئے بلایا ہے ؟ جس پر محترمہ نے کہا کھانا کھانے کیلئے ، یہ سن کر ولی خان ناراض ہوگئے اور محترمہ کو کہا کہ سیاسی لوگ بات چیت کیلئے ملتے ہیں کھانا تو ہمیں اپنے گھر میں بھی اپنی پسند کا مل جاتا ہے ،ولی خان اٹھ گئے اور محترمہ سے کہا کہ آئندہ ہم آپ سے نہیں ملیں گے ، اگست 1999میں میاں نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ تعلقات بگڑ گئے تو ان کو ہم یاد آگئے ، وہ پشاور آئے ،مجھے گاڑی میں بٹھایا اور ولی باغ روانہ ہوگئے ،راستے میں انہوں نے بتایا حاجی صاحب کیوں نہ ہم صدارتی نظام کی طرف چلے جائیں ؟ کیونکہ پارلیمانی نظام مکمل ناکام ہوگیا ہے ، ساتھ میں بیٹھے چوہدری نثار نے بھی کہا کہ حاجی صاحب اگر ہم صدارتی نظام کی طرف گئے تو ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے ، میں نے کہا کہ بالکل نہیں صدارتی نظام سے ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ تین صوبے مزید محرومیوں کا شکار ہو جائیں گے۔