• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جادو والی ترقی پائیدار نہیں، ہمیں آہستہ آہستہ استحکام کی طرف جانا ہے، چیئرمین ایف بی آر، جیو کے ’’پاکستان کے لیے اس بار کر ڈالو‘‘ میں گفتگو

اسلام آباد (تنویرہاشمی/ٹی وی رپورٹ) چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو راشدمحمود لنگڑیال نے اعتراف کیا ہے کہ ہم غلط سائیڈ پر جاچکے ہیں‘ ٹیکس شرح کم کرنی چاہیے‘ حکومت کو بھی اس بات کا احساس ہے‘جادووالی ترقی پائیدار نہیں ہوسکتی‘ گروتھ کو روک کر استحکام کی طرف جانے کے نتائج معاشرے کےلیے ٹھیک نہیں ہوں گے‘ہمیں آہستہ آہستہ استحکام کی طرف جانا ہے‘ہمارے ٹیکسیشن اسٹرکچر میں بہتری کی ضرورت ہے‘ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو ٹیکس ادا کرنا چاہے وہ نہیں کر رہے‘ہم نے ایف بی آر میں یہ صلاحیت ہی پیدا نہیں کی کہ اُن سے ٹیکس وصول کیا جائے جنہیں ٹیکس ادا کرنا چاہیے‘ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچنا ہوگا‘فروری 2025ءسے فروری 2026کے دوران ہونیوالی فیصلہ سازی بہت اہم ہوگی‘تاثر ہے کہ ترقی کےفوائدعام آدمی تک نہیں پہنچ رہے‘انکم ٹیکس کا مجموعی ٹیکس گیپ 2400ارب روپے ہے‘لکی سیمنٹ کے چیف ایگزیکٹو محمد علی ٹبا کا کہناہے کہ صنعتوں پر مہنگی بجلی‘ ٹیکسوں اور حالات کا بوجھ ہے‘حل یہ ہے کہ توانائی کا شعبہ ڈی ریگولیٹ کریں ‘ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو بیچ دیا جائے‘ہمیں نئے سیکٹرز اور انفراسٹرکچر کو بھی ڈویلپ کرنا ہوگا‘پاکستان بزنس کونسل کے چیف ایگزیکٹیو افسر احسان ملک کے مطابق زیادہ معاشی نمو کا طریقہ برآمدات میں اضافہ ہے‘سرمایہ کاری بڑھانے کے لئے بہتر مالیاتی پالیسی درکار ہےجبکہ عارف حبیب گروپ کے چیئرمین عارف حبیب نے کہاکہ انڈسٹری سے زیادہ تعمیرات پر ٹیکس ہے جو115 فیصد ہے‘اس سے حکومت ٹیکسوں کی وصولی بھی نہیں کرسکتی‘گھروں کی فروخت کیش میں کرنے سے چیزیں دستاویزی نہیں رہتیں‘ٹاپ لائن سکیورٹیزکے سی ای اومحمد سہیل کاکہنا ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر اب بھی بہت کم ہیں۔ہم ابھی 6فیصد معاشی نمو کے لئے فٹ نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن ’’پاکستان کےلیے اس بارکرڈالو،آخری موقع‘ ‘ میں میزبان شاہ زیب خانزادہ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ راشد محمود لنگڑیال کا کہناتھاکہ جادووالی گروتھ پائیدار نہیں ہوسکتی ،گروتھ آہستہ ہوگی تو پائیدار ہوگی‘ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچنا ہوگا‘فروری 2025ء سے فروری 2026کے دوران ہونیوالی فیصلہ سازی بہت اہم ہوگی ‘ ٹیکس ٹو جی ڈی پی بہتر ہوگا تو ٹیکس کی شرح میں کمی آئے گی‘تاثر ہے کہ گروتھ کےثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے ‘ ہمیں ٹیکس اسٹرکچر میں تبدیلی کی ضرورت ہے‘ پاکستان میںجن لوگوں کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے وہ نہیں کر رہے‘ ٹاپ کے پانچ فیصدامیر لوگوں کی جانب سے1500ارب روپے سے 17سو ارب روپے کا ٹیکس گیپ ہے‘اس کی وجہ ایف بی آر کی ٹیکس جمع کرنےکی صلاحیت میں کمی ہے‘ ایف بی آرمیں صحیح جگہ سے اور صحیح ٹیکس جمع کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کی گئی ‘ ایف بی آر کی ٹیکس جمع کرنے کی صلاحیت بھی بڑھائی جائے گی اور درآمدی سطح کے ٹیکسوں کو بتدریج کم کریں گے ، ٹیکس بیس بڑھانے کی ضرورت ہے‘انکم ٹیکس کا مجموعی ٹیکس گیپ 2400ارب روپے ہے ،ان میں سے ٹاپ کے امیر ایک فیصد کی جانب سے ٹیکس گیپ 1200ارب روپے ہے جو 6لاکھ 67ہزار افراد ہیں‘ان کی اوسط سالانہ آمدن ایک کروڑ32لاکھ روپے ہے جبکہ انکم ٹیکس میں ٹاپ کے پانچ فیصد امیر لوگ 35لاکھ ہیں جو پورا ٹیکس جمع نہیں کراتے‘جی ڈی پی میں دستاویزی معیشت کا حصہ بہت کم ہے، آئی ٹی‘معدنیات‘گارمنٹس سیکٹر میں گروتھ کی گنجائش ہے‘ان شعبوں میں حکومت کو مراعات دینی چاہیے‘ ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم کی وفاقی کابینہ منظوری دے چکی ہے جلد اس کا اجرا کردیاجائے گا، فیس لیس ٹیکس اسسمنٹ کی جانب بھی جائیں گے ، راشد محمود لنگڑیال نے کہا کہ پراپرٹی پر کوئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم زیر غور نہیں‘ تعمیراتی شعبے کو ٹیکسوں میں رعایت دیںگے‘پراپرٹی کی ٹرانزکشن پر ٹیکس زیادہ ہے‘ 13فیصد ٹرانسفر ٹیکس نہیں ہونا چاہئے ، اس کو کم کیاجائے گا، کیپٹل گین ٹیکس کو موجودہ شرح پر برقرار رکھا جائے گا، درآمدی سطح پر جو سیلز ٹیکس عائد ہے اس کو کم کیاجائے گا یہ ایڈوانس ٹیکس ہےجوکہ ختم ہوناچاہئے، پراپرٹی کے ویلیوایشن ٹیبل کے تعین کا کام تھرڈ پارٹی کو دینےپر غور کر رہےہیں ‘پراپرٹی کی ویلیوایشن بڑھانے کی شکایات ہیں ۔ پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے محمد علی ٹبانے کہا کہ ہمیں بتدریج پائیدار اور انکلوسیو گروتھ کی جانب جانا ہوگا‘شپنگ انڈسٹری کو قائم کرنا ہوگا ، ٹیکس اسٹرکچر کی وجہ سے شپنگ انڈسٹری قائم نہیں ہورہی‘مجموعی طور پر 60فیصد ٹیکس ہے ‘ایوی ایشن میں بھی ٹیکس کے باعث سرمایہ کارنہیں آرہے‘ ہمیں نئے سیکٹرز اور انفراسٹرکچر کو بھی ڈویلپ کرنا ہوگا‘ ملک کو ترقی پر ڈالنے کےلیے ایک پلیٹ فارم دینا ہوگا‘صنعتوں پر مہنگی بجلی، ٹیکس اور حالات کا بوجھ ہے۔اگر پچھلی غلطیاں دہرائیں تو ملک مزید پیچھے چلا جائے گااورعوام مزید غریب ہوتی جائے گی۔ہمارے بزنس مین آرام دہ ماحول میں کام کرنے کے عادی ہیں۔جس انڈسٹری میں خطرہ ہے اور محنت کرنی ہے اس طرف بزنس مین جانے سے گھبراتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم نئے سیکٹرز کو لے کر آئیں ۔ہمیں نئی سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہے نئی انڈسٹری لگے کی گروتھ میں بھی اضافہ ہوگا۔ ہمیں جو پالیسیاں دی جاتی ہیں وہ بہت غلط استعمال ہوتی ہیں ۔ جب تک انرجی سیکٹر کو فکس نہیں کریں گے پاکستان کا انڈسٹریل سیکٹر گرو نہیں کرے گا۔جو انڈسٹریز لگ گئی ہیں وہ تکلیف دہ اسٹیج پر ہیں۔ پروگرام میں گفتگوکرتے ہوئے عارف حبیب نے کہا کہ بہت سے سیکٹرز انڈرکیپسٹی پر چل رہے ہیں‘ٹیکسٹائل‘ تعمیرات کے شعبے اپنی اصل صلاحیت سے کم پر گروتھ دے رہے ہیں ان کے مسائل حل ہوجائیں تو یہ اپنی استعداد میں اضافہ پر چلیں گے‘معاشی سرگرمی بڑھے گی تو سرمایہ کاری آئے۔ ٹیکسٹائل کے مسائل کو حل کیا جائے تو وہ آپ کو کما کر دے سکتا ہے۔ تعمیراتی سامان سیمنٹ، اسٹیل،ٹائلز ، گلاس سب چالیس پچاس فیصد کی صلاحیت پر چل رہے ہیں‘ا ن کی پروڈکشن بڑھانے کے لئے نئی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ہے ۔ کنسٹرکشن میں33 فیصد فارن ایکسچینج ہے66 فیصد لوکل کرنسی ہے۔اس میں ٹیکس وصولی جمع کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے‘حکومت کواس سے 500 ارب کا ایڈیشنل ٹیکس حاصل ہوگا۔ زرعی شعبے پر پوری طرح توجہ دینی چاہئے کہ کیا مسائل تھے ۔ آئی ٹی پر باتیں بہت ہورہی ہیں کہ اس میں گروتھ ہے ۔جیسی خواہش ہے ویسی گروتھ نظر نہیں آتی اس کو مزید بڑھایا جاسکتا ہے۔مائننگ پر بھی حکومت کی توجہ ہے۔ مائننگ گروتھ بھی دے گی اور فارن ایکسچینج حاصل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگی۔اس سال ریئل اسٹیٹ میں کارکردگی نظر آئے گی‘جو لوگ باہر سرمایہ لے گئے وہ پچھتاوا کریں گے کہ پاکستان میں زیادہ اچھا ریٹرن ہے ۔ پرانی غلطیوں کی تلافی کرکے شفاف طریقے سے آگے بڑھنا چاہئے‘ٹیکس میں کمی کی بات ایڈوانس ٹیکس کلیکشن سے متعلق ہورہی ہے۔جتنا ٹیکس ہے وہ تو دینا ہی پڑے گا۔احسان ملک نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فٹ ٹو گروتھ کی جانب جانا ہوگا، حکومت کو نجکاری‘ سرکاری اخراجات میں کمی لانا ہوگی‘بیرونی اکائونٹس میں بہتری کےلیے برآمدات میں اضافہ بہت ضروری ہے‘ ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھانا بہت اہم ہے، ہمیںاچھی مالیاتی پالیسی کی ضرورت ہے‘ سرمایہ کاری بڑھانے کے لئے بہتر مالیاتی پالیسی درکار ہے۔ آسامیوں کو منسوخ کرنے سے بچت نہیں ہوتی آئندہ کا خرچہ ضروربچ جاتا ہے۔اس میں اسٹرکچرل تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ہمیں کوالٹی آف گروتھ دیکھنا ہوگا کہ کون سی انڈسٹری کو توسیع دینے سے ملک کو فائدہ ہوگا۔

اہم خبریں سے مزید