اسلام آباد(جنگ رپورٹر) عدالت عظمیٰ نے وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے گلگت و بلتستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرریوں سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے مشروط طور پر مقدمہ کی واپسی سے متعلق دائر درخواست پر وفاقی حکومت کا موقف طلب کر لیا ہے،آئینی بینچ نے کہا کہ ، وفاقی و گلگت بلتستان حکومتیں مل بیٹھ کر مسئلہ حل کریں،گلگت بلتستان حکومت کی مقدمہ کی مشروط واپسی کیلئےدرخواست ،وفاقی حکومت سےموقف طلب ، سینئر جج ، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میںجسٹس جمال خان مندو خیل ،جسٹس نعیم اختر افغان،جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل پانچ رکنی آئینی بینچ نے سوموارکے روز سابق وزیر اعظم گلگت و بلتستان خالد خورشید خان کیے دور میں دائر درخواست کی سماعت کی تو مخدوم علی خان ایڈوکیٹ پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ انہیں گلگت و بلتستان کی سابق حکومت کی جانب سے اس مقدمہ میں وکیل مقرر کیا گیا تھا ،لیکن اب کہا گیا ہے کہ انہیں میری خدمات نہیں چاہییں،اب ایڈوکیٹ جنرل گلگت و بلتستان پیش ہوں گے،انہوںنے کہا کہ درخواست گزار ،گلگت و بلتستان حکومت نے یہ مقدمہ ہی واپس لینے کی اجازت دینے کی درخواست دائر کر رکھی ہے،جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے کہاکہ کہ گلگت و بلتستان حکومت صرف درخواست واپس نہیں لینا چاہتی بلکہ وہ چاہتی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے گلگت و بلتستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرریوں میں وزیراعلی گلگت وبلتستان کی مشاورت کو لازمی قرار دیا جائے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ وزیر اعلیٰ کی مشاورت لازمی ہونے کو وفاقی حکومت تسلیم نہیں کرتی ہے ،جسٹس جمال خان مندو خیل نے استفسار کیا کہ گلگت و بلتستان کس قانون کے تحت چل رہا ہے ؟تو ایڈیشنل اٹارنی نے بتایا کہ2018کے آرڈر کے تحت تمام معاملات چلائے جا رہے ہیں،قانون گورنر سے مشاورت کا کہتا ہے، جس پر جسٹس مندو خیل نے کہاکہ دونوں حکومتیں مل بیٹھ کر مسئلہ حل کریں،عدالت نے سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی۔