• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچوں کو کس عمر میں روزہ رکھوانا چاہیے؟

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

آپ کے مسائل اور ان کا حل 

سوال: بچوں کو کس عمر میں روزہ رکھوانا چاہیے؟

جواب: فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اگر علاماتِ بلوغ ظاہر ہو جائیں تو اس پر بلوغت کا حکم لگایا جائے گا اور اُس پر احکامِ شرعیہ فرض ہو جائیں گے، اگر علامات ظاہر نہ ہوں تو 15 سال پورے ہونے پر بالغ تصور کیا جائے گا۔

علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں کہ ترجمہ کے مطابق اور جب بچہ روزہ رکھنے کے قابل ہو جائے اور جب 10 سال کا ہو جائے تو صحیح ترین قول کے مطابق اسے سرزنش کرکے روزہ رکھوایا جائے، جیسا کہ نماز کے بارے میں حکم ہے۔

اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں کہ ترجمے کے مطابق بعض فقہاء نے بچے کے روزہ رکھنے کے قابل ہونے کی عمر 7 سال بتائی ہے، ہمارے زمانے کا مشاہدہ یہ ہے کہ اتنی عمر میں بچہ روزہ رکھنے کے قابل نہیں ہوتا اور اس کا مدار ہر ایک کی جسمانی صلاحیت، صحت اور موسم (گرما یا سرما) پر ہے اور ظاہر یہ ہے کہ جتنے دن آسانی سے وہ روزہ رکھ سکے، اسے کہا جائے، پورے مہینے کے روزے رکھوانا ضروری نہیں ہے، (مزید لکھتے ہیں) اگر نابالغ بچہ روزہ رکھنے کے بعد بغیر عذر کے توڑ دے تو اس پرقضا نہیں ہے۔

(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار، جلد3، ص:344، داراحیاء التراث العربی، بیروت)

شیخ الحدیث و التفسیر علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں کہ جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ جن بچوں کی عمر بلوغت سے کم ہو، اُن پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے، متقدمین کی ایک جماعت نے مستحب قرار دیا ہے۔ ابن سیرین اور زہری کا بھی یہی قول ہے اور یہی امام شافعی کا قول ہے، اُنہوں نے کہا کہ جب بچے روزے رکھ سکیں تو ان کو مشق کرانے کے لیے ان سے روزے رکھوانے چاہئیں۔

امام شافعی ؒ کے اصحاب کے نزدیک اس کی حد نماز کی طرح سات سال اور دس سال ہے اور اسحاق کے نزدیک اس کی حد بارہ سال ہے اور امام احمد کے نزدیک ایک روایت میں اس کی حد دس سال ہے اور امام مالک کا مشہور قول یہ ہے کہ بچوں کے حق میں روزہ مشروع نہیں ہے۔

علامہ ابن بطال نے کہا ہے کہ علماء کا اس پر اجماع ہے کہ عبادات اورفرائض صرف بلوغ کے وقت لازم ہوتے ہیں ،مگر اکثر علماء نے برکت کے لیے بچوں کو عبادات کی مشق کرانا مستحسن قراردیا ہے تاکہ بچے عبادات کے عادی ہوجائیں اور جب ان پر عبادت لازم ہو، تو ان کے لیے عبادت کرنا آسان ہو اور جو اُن کو عبادت کی مشق کرائے گا، اس کو اجر ملے گا، (عمدۃ القاری، جلد11، ص: 98 بیروت۔نعمۃ الباری ،جلد4،ص:473)

خاص رپورٹ سے مزید