• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ممکنہ ’’ٹریڈ وار‘‘ میں پاکستان کا کردار

دنیا آج وہ نہیں رہی، جو دو ماہ پہلے تھی۔اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برق رفتاری سے کچھ ایسے انتظامی، سیاسی اور معاشی فیصلے کیے ہیں، جن سے متعلق وہ اپنی پہلی صدارتی ٹرم سے اعلانات کرتے چلے آ رہے تھے، لیکن اُس وقت اُنہیں اِس طرح نافذ نہ کر پائے، جیسے وہ چاہتے تھے۔ دنیا نے غالباً صدر ٹرمپ کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا، وہ سمجھے کہ گرج برس کر پھر اُسی پرانی ڈگر پر چل پڑیں گے، مگر اِس بار ایسا نہیں ہوا۔

کوئی صدر ٹرمپ سے خواہ کتنا ہی اختلاف کیوں نہ رکھے، مگر یہ طے ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ تعلقات پر ایک نیا ویژن رکھتے ہیں اور جو اقدامات اُنہوں نے کیے، اُن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اِس معاملے میں سنجیدہ ہیں۔ ہاں، یہ الگ بات کہ کسی تاجر کی طرح لین دین کے لیے بھی تیار ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آخر صدر ٹرمپ یہ سب کیوں کرنا چاہتے ہیں۔دراصل صدر ٹرمپ کو یقین ہے کہ دنیا، خاص طور پر بڑے اور خوش حال ممالک نے امریکا کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اور وہ اسے تجارتی معاملات میں بے وقوف بناتے چلے آ رہے ہیں۔

اُن ممالک نے امریکا سے بڑے پیمانے پر مالی امداد لی اور اُسے اُڑا گئے، جب کہ اُنھوں نے امریکی خواہشات کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا۔ صدر ٹرمپ اِس معاملے میں ماضی کے امریکی صدور کو بھی موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ اب جن ممالک نے اُن کے بقول امریکا کو نقصان پہنچایا، وہ اُن سے چن چن کر حساب لے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے مطابق ماضی کی پالیسیز کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکا کو شدید مالی و معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ کئی ممالک امریکا کا استحصال کر کے امیر ہوگئے۔ ٹرمپ اِس ضمن میں دستاویزی ثبوت بھی پیش کرتے ہیں۔ 

اُن کے مطابق عالمی ادارۂ صحت، انسانی حقوق، ماحولیات کے لیے کام کرنے اور انسانی امداد فراہم کرنے والے ادارے سب امریکی امداد ضائع کرتے رہے۔دوسرے ممالک اور عوام اِس امریکی امداد کو اپنا حق سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔ حال ہی میں میانمار میں ہول ناک زلزلہ آیا، جس میں چار ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ عالمی سطح پر تنقید ہوئی کہ امریکا نے زلزلہ متاثرین کے لیے بہت کم امداد دی، جس پر امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے بیان دیا کہ’’ہم کوئی ورلڈ گورنمنٹ نہیں ہیں۔‘‘دوسرے الفاظ میں وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ’’ہم نے دنیا کا ٹھیکا نہیں لے رکھا۔‘‘صدر ٹرمپ دنیا سے تجارت اور تعاون کے معاملات درست کرنا چاہتے ہیں اور یہی اُن کی پالیسی کا بنیادی محور ہے۔

چین نے اِس صدی کے شروع ہی سے غیر معمولی ترقّی کی ہے، خاص طور پر اس نے دو شعبوں اوّل، سستے اور معیاری مال کی تیاری، یعنی مینو فیکچرنگ اور دوم، برآمدات میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ چین کو نہ صرف’’ دنیا کی فیکٹری‘‘ کا اعزاز حاصل ہوا، بلکہ60فی صد عالمی مارکیٹس پر اس کے مال کو برتری حاصل ہے۔ تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی کہ’’یہ صدی، چین کی صدی ہوگی اور سرمایہ مغرب سے مشرق کی طرف بہے گا۔‘‘ امریکا، جو مغربی آرڈر کا لیڈر تھا، بھلا اِس صُورتِ حال کو کیسے ہضم کرسکتا ہے۔

وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں ایک قوم پرست لیڈر سامنے لے آیا۔ چین، امریکا کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے اور دونوں کی باہمی تجارت تقریباً8 سو بلین ڈالرز پر محیط ہے۔ تاہم، اِس تجارت میں امریکا کو بڑے خسارے کا سامنا ہے۔ گزشتہ چھے ماہ کا خسارہ 296 بلین ڈالرز رہا، جب کہ اِس دوران450 بلین ڈالرز کی تجارت ہوئی۔ اپنی پہلی ٹرم میں بھی صدر ٹرمپ چینی تجارت میں خسارے کا ذکر کرتے رہے، اُنہوں نے چین پر ٹیرف بھی عاید کیے، لیکن پھر بات چیت کے ذریعے انہیں کسی حد تک معمول پر لے آئے۔

صدر جوبائیڈن کا دَور آیا، تو چین کے ساتھ صُورتِ حال معمول پر آگئی۔ لیکن اِس مرتبہ صدر ٹرمپ اچھی طرح تیار ہوکر آئے ہیں اور چین پر145فی صد ٹیرف عاید کردیا، جس کے جواب میں چین نے بھی84 فی صد ٹیکسز عاید کردئیے۔ ٹرمپ نے اِس معاملے میں باقی ممالک کو بھی نہیں بخشا اور اُن پر بھی ٹیکسز کی بھرمار کردی، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔(بعدازاں امریکا پر جوابی ٹیکس عاید نہ کرنے والے بیش تر ممالک پر ٹیرف 90 روز کے لیے معطّل کردیا)۔

صدر ٹرمپ نے اُن ممالک کے مال پر بھی ٹیکس عاید کیا ہے، جو چینی مال تیار کرکے امریکا برآمد کرتے ہیں، جیسے ویت نام اور کمبوڈیا۔ صدر ٹرمپ نے جس طور انتخابی فتح حاصل کی، اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی عوام کو جوبائیڈن کا دھیما لہجہ پسند نہ تھا اور وہ بھی’’امریکا فرسٹ‘‘ پالیسی کے حامی ہیں، جب کہ وہ تارکینِ وطن سے متعلق ٹرمپ کی پالیسی کے بھی پُرجوش حامی ہیں۔

صدر ٹرمپ نے یورپ، جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک، یہاں تک کہ برطانیہ پر بھی ٹیرف عاید کیے ہیں۔ چین سب سے زیادہ ٹیرف کی زد میں آیا اور اُس کا کہنا ہے کہ’’وہ کسی کے سامنے نہیں جُھکے گا اور کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔‘‘ اِسی لیے اُس نے امریکی درآمدات پر جواباً84 فی صد ٹیرف لگائے، تاہم اِس کے ساتھ اُس نے یہ بھی کہا کہ’’زور زبردستی کی بجائے مذاکرات کے ذیعے مسائل حل کیے جائیں۔‘‘ٹیرف اُن اشیاء پر ٹیکس کو کہتے ہیں، جو دوسرے ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں اور عام طور پر ٹیرف سے مال کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر ایک سو روپے کی چیز پر25 فی صد ٹیکس لگا، تو اس کی قیمت125 روپے ہوجائے گی، لیکن یہ اضافہ اِس امر سے مشروط ہے کہ وہ کمپنی، جس کے مال پر ٹیرف لگایا گیا ہے، اپنے صارفین پر کتنا بوجھ منتقل کرتی ہے۔ ایک طرح سے یہ بڑی عالمی کمپنیز کے لیے بھی ایک ٹیسٹ کیس ہے۔اُنہوں نے اربوں، کھربوں ڈالرز منافع کمایا ہے، اب دیکھنا ہے کہ کیا یہ کمپنیز حسبِ سابق قیمتوں میں اضافے کا بوجھ صارفین ہی پر ڈالتی ہیں یا کھربوں کمائے منافعے میں سے کچھ نکال کر صارف کو کسی حد تک ریلیف پہنچاتی ہیں۔

روز میڈیا میں آتا ہے کہ بڑے ممالک میں کھرب پتیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، تو یہ دولت عوام ہی سے حاصل کی جاتی ہے۔ کئی کمپنیز کا بجٹ پاکستان جیسے ممالک سے بھی کئی گُنا زیادہ ہے۔ بہرحال،صدر ٹرمپ کے اقدامات سے دنیا ایک مرتبہ پھر منہگائی کی لپیٹ میں آسکتی ہے، لیکن یہ اُس طرح نہیں ہوگی، جیسے یوکرین جنگ کے بعد ہوا تھا۔ اِس بار منتخب اشیاء کی قیمتیں بڑھیں گی، جب کہ کچھ اشیاء کی قیمتیں کم ہوجائیں گی، جیسے پیٹرولیم مصنوعات۔

امریکی صدر کے اقدامات اور چین کے جوابی وار کو ماہرین’’ٹریڈ وار‘‘ کے خطرے کے طور پر لے رہے ہیں، جس کے منفی اثرات دنیا کو لپیٹ میں لے سکتے ہیں، جیسے کہ کساد بازاری، جس میں اقتصادی عمل سُست پڑ جاتا ہے۔ لوگ خریداری کم کردیتے ہیں اور جب خریداری کم ہوگی، تو نیا مال بنانا بے کار ہوجائے گا۔ نتیجتاً تجارتی عمل سُست پڑنے لگے گا اور روز گار کم ہو جائے گا۔لوگ معیارِ زندگی بلند کرنے کی بجائے گزارہ کرنے کو ترجیح دینے لگیں گے، جب کہ رواں صدی کی سب سے بڑی کام یابی ہی یہ ہے کہ اس میں عالمی معیارِ زندگی ریکارڈ بلند ہوا۔ 

دوسری عالمی جنگ سے قبل کی کساد بازاری آج تک ماہرینِ معیشت اور دنیا کے لیے ایک خوف کی علامت ہے۔ کورونا میں بھی کسی حد تک یہ صُورتِ حال دیکھنے میں آئی، لیکن اس پر جلد قابو پا لیا گیا۔ذہن میں رہے کہ صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی فوری طور پر نقصان نہیں پہنچائے گی، کیوں کہ یہ ٹیرف اُس مال پر ہوگا، جو ابھی تیاری کے مراحل میں ہے اور بعد میں امریکا بھیجا جائے گا، کیوں کہ جو مال جہازوں، کنٹینرز یا مارکیٹ میں ہے، اُس پر وہی پرانا ٹیکس نظام لاگو ہوگا۔سوال یہ ہے کہ آخر چین، امریکا کے مقابلے میں کیوں ڈٹ گیا ہے؟

گو کہ چین کی امریکا کے ساتھ سب سے زیادہ تجارت ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ اُس کی کُل برآمدات کا صرف دو فی صد ہے، اِسی لیے اُس کا کہنا ہے کہ وہ اِس معاملے سے کسی بڑے نقصان کے بغیر گزر جائے گا۔ ویسے ماہرین اِس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اگر امریکی معیشت بہت اچھی نہیں، تو چین کی ترقّی کی رفتار بھی وہ نہیں، جو دس سال پہلے ہوا کرتی تھی۔خاص طور پر حالیہ برسوں میں تعمیراتی شعبے کے نقصانات نے اسے بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔اُدھر ٹرمپ نے اپنے عوام کو یقین دِلایا ہے کہ یہ مشکلات عارضی ہوں گی اور صُورتِ حال جلد بہتر ہو جائےگی۔

صدر ٹرمپ کی ایک بڑی خواہش یہ تھی کہ تیل کی قیمتیں کم کی جائیں اور اِس وقت یہ قیمتیں تیزی سے گر رہی ہیں۔جو برینٹ کروڈ سال بَھر پہلے90 ڈالر فی بیرل سے اوپر تھا، وہ گر کر60ڈالر پر آچُکا ہے، جب کہ امریکی ڈبلیو ٹی آئی تو اس سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ روس دنیا میں دوسرے نمبر پر تیل پیدا کرنے والا مُلک ہے اور اُس کے تیل کی قیمتیں50 ڈالر سے نیچے آچُکی ہیں۔وہ38 ماہ سے یوکرین کے ساتھ جنگ کر رہا ہے اور جنگ کا خرچہ معمولی نہیں ہوتا۔پھر روس اپنے بجٹ کے لیے تیل کی قیمتوں پر انحصار کرتا ہے، بلکہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ تیل پیدا کرنے والے مُلک، تیل کی آمدنی ہی پر چلتے ہیں۔

اوباما کے زمانے میں تیل کی قیمتیں کم ہو کر 30 ڈالر پر آئیں، تو عرب ممالک کو بہت کچھ سوچنا پڑا تھا، جب کہ روس کی حالت تو بہت ہی تشویش ناک ہوگئی تھی۔اگر پاکستان کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تو اس کے لیے تیل کی قیمتوں کا گرنا کسی تحفے سے کم نہیں کہ اس کی کُل برآمدات کا تیس فی صد تیل پر مشتمل ہے۔ نومبر سے تیل کی قیمتیں کم ہوئیں،جس سے پاکستان کو تقریباً 900 ملین ڈالرز کے زرِ مبادلہ کی بچت ہوئی، اِسی لیے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے لیے بجلی کی قیمتوں میں کمی ممکن ہو سکی۔

اب اگر تیل کی قیمتیں مزید گرتی ہیں، تو اس کا مزید فائدہ ہوگا، زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھیں گے اور قرضہ اُتارنا آسان ہوجائے گا۔ تاہم، اِس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اگر تیل کی قیمتیں بہت کم ہوجاتی ہیں، تو ِاس کا اثر عرب ممالک میں موجود پاکستانی تارکینِ وطن کی جانب سے آنے والے زرِ مبادلہ پر پڑ سکتا ہے کہ پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد مشرقِ وسطیٰ ہی میں ہے۔

90لاکھ اوورسیز پاکستانیوں میں سے صرف بیس لاکھ یورپ، امریکا، برطانیہ اور کینیڈا میں رہتے ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق اگر گزشتہ برسوں میں پیش آنے والے اِس طرح کے واقعات دیکھے جائیں، تو عموماً زرِ مبادلہ کے آنے پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ وہ اپنے گھر والوں کو پیسے بھیجتے ہیں اور اس میں کمی بہت مشکل ہے۔ اِس سال پاکستانی تارکینِ وطن کی جانب سے ریکارڈ 35ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ آیا، جس سے معیشت کو سہارا دینے میں بہت مدد ملی۔

بلاشبہ صدر ٹرمپ کی جانب سے عاید کردہ ٹیکسز دنیا کے لیے زلزلہ ثابت ہوئے ہیں، تاہم عالمی رہنماؤں میں بات چیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے صدر شی جن پنگ سے متعلق کہا کہ’’وہ بہت اچھے لیڈر ہیں اور مَیں اُن سے جَلد ملوں گا۔‘‘ صدر پیوٹن کو وہ دو مرتبہ طویل ٹیلی فون کالز کر چُکے ہیں۔ یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک اُن کے پرانے اتحادی ہیں۔چین سمیت سب یہی کہہ رہے ہیں کہ بات چیت سے مسائل حل کریں گے۔صدر ٹرمپ تاجر ہیں اور وہ معاملات جنگ و جدل کی بجائے سودے بازی سے کرنے کے عادی ہیں۔

اُنہوں نے آتے ہی کینیڈا اور میکسیکو پر ٹیرف لگائے اور ہفتے بعد ہی ہٹا لیے۔صدر ذیلنسکی پر خُوب گرجے برسے، ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عاید کی، لیکن ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں پھر وہی پرانے اتحادی والا معاملہ ہوگیا۔پاکستان پر 29فی صد ٹیرف لگے(جو تین ماہ کے لیے معطّل کردئیے گئے ہیں)، تاہم پاکستانی تاجروں کا کہنا ہے کہ اس سے اُنھیں فائدہ پہنچنے کا امکان ہے، کیوں کہ جو ممالک پاکستان کے مقابل ہیں، اُن پر زیادہ ٹیرف عاید کیے گئے ہیں اور اِس سے پاکستانی مال کی کھپت کو فائدہ ہوگا۔ پاکستان کے چین سے اچھے تعلقات ہیں اور امریکا سے بھی۔ حالیہ دنوں میں پاکستان اور امریکا کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر اچھے رابطے ہوئے ہیں۔آئی ایم ایف نے، جو امریکا کی’’ بی ٹیم‘‘ کہلاتا ہے،حال ہی میں پاکستان کے لیے ماحولیات کی مَد میں دو ارب ڈالر کا قرضہ جاری کیا ہے۔

یہ مثبت اشارے ہیں۔دوسری طرف چین، پاکستان کی معاشی صُورتِ حال سے بخوبی واقف ہے، اِس لیے وہ پاکستان سے امریکا کا مقابلہ کرنے کے ضمن میں کچھ خاص توقّع نہیں رکھتا۔ ہم روس سے تیل نہیں لیتے، کیوں کہ یہ ہماری ریفائنریز کے لیے مناسب نہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان کیا کچھ کرسکتا ہے، امریکا اِس سے اچھی طرح واقف ہے۔ اِس لیے مجموعی طور پر دیکھا جائے، تو صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی سے پاکستان پر کوئی خاص اثرات مرتّب نہیں ہوں گے، بلکہ تیل کی قیمتیں قابو میں رہتی ہیں، تو اِس معیشت اور زرِ مبادلہ، دونوں کو فائدہ ہوگا۔

پاکستان کو اپنی پالیسی میں اعتدال رکھنا ہوگا۔دنیا میں کہاں، کیا ہو رہا ہے، اس سے واقفیت رکھنا اور اپنے جذبات کا اظہار تو کر سکتے ہیں، لیکن یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ حالات پر اثر انداز ہونے کی ہمارے پاس علاقائی صلاحیت ہے اور نہ ہی عالمی طاقت۔ پاکستان کو اپنی تمام تر توجّہ معیشت بہتر بنانے پر مرکوز رکھنی چاہیے اور اسے بہتر بنانے کا راستہ آسان ہے اور نہ ہی اس کا کوئی شارٹ کٹ ہے۔