گزشتہ سال اگست میں مانچسٹر ایئرپورٹ پر ایک نہایت ناخوش گوار واقعہ پیش آیا۔ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ ایک مسافر طیارے میں سوار خاتون کی دورانِ سفر ایک مرد مسافر سے تلخ کلامی ہوئی۔ جہاز میں تو عملے نے اس معاملے کو فوراً رفع دفع کروا دیا، لیکن ہوائی اڈّے پر مذکورہ خاتون نے، جن کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا، اس واقعے کا ذکر اپنے اُن بیٹوں سے کیا، جو اُنہیں ریسیو کرنے آئے تھے۔ ماں کی باتیں سُن کر جوان بیٹے فوراً طیش میں آگئے اور انہوں نے اُس مسافر سے لڑائی جھگڑا شروع کردیا۔
دوسرا مسافر بھی پاکستانی تھا، اُس نے فوراً متعلقہ پولیس اسٹیشن کومطلع کیا، تو برطانوی پولیس آناًفاناً جائے وقوع پر پہنچ گئی۔ تاہم، اُس خاتون کے بیٹوں نے پولیس سے بھی لڑنا شروع کردیا۔ جھگڑے کے دوران پولیس اہل کارزخمی ہوئے،جب کہ خاتون پولیس افسر کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔
بعدازاں، مانچسٹر کی پاکستانی کمیونٹی نے اس افسوس ناک واقعے کا ذمّےدار برطانوی پولیس کو قرار دیتے ہوئے احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں دونوں پاکستانی نوجوانوں کو رہا کردیا گیا، جب کہ ایک پولیس اہل کارکوعارضی طور پر معطّل کردیا گیا۔ واضح رہے کہ برطانوی پولیس کو کسی بھی قسم کا ہتھیار، چاہے وہ لاٹھی ہی کیوں نہ ہو، رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ مانچسٹر ایئرپورٹ پر پیش آنے والا مارپیٹ کا یہ واقعہ اُن پاکستانی نوجوانوں کے ایک دوست نے فلما کر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کردیا، جس کے بعد سوشل میڈیا پرایک گرما گرم بحث چِھڑ گئی اور برطانیہ کی مقامی آبادی اور پاکستانی کمیونٹی کے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔
تاہم، کچھ ہی عرصے میں حالات معمول پر آگئے، لیکن کچھ عرصے بعد اچانک ایک اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، جس میں مقامی آبادی اور پولیس کو متعصّب قرار دیتے ہوئے یہ تاثر دیا گیا کہ برطانیہ میں فسادات پُھوٹ پڑے ہیں۔ مذکورہ ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی حقیقتاً فسادات پُھوٹ پڑے اور اس دوران مسلمانوں، بالخصوص پاکستانیوں کے گھر نذرِ آتش کیے گئے۔ دریں اثنا، برطانوی قوم پرستوں نے مسلمانوں اور پاکستانی باشندوں پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے اور پورے برطانیہ میں ان کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ کم وبیش پندرہ روز تک حالات خاصےکشیدہ رہے۔
اس دوران پاکستانی کمیونٹی خوف کا شکاررہی اور پھر بڑی مشکل سے صورتِ حال معمول پر آئی۔ بعدازاں، برطانوی پولیس اور انتظامیہ نے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر جاری کیں، تو حقیقت عیاں ہوگئی۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جس ویڈیو کی وجہ سے برطانیہ میں نسلی فسادت پُھوٹے، وہ لاہور کے رہائشی ایک شخص کے اکائونٹ سے اَپ لوڈ کی گئی تھی، جسے پولیس نے حراست میں لے لیا۔
نیز، اُس شخص پر مقدّمہ بھی چلا، لیکن اُس کے انجام کا آج تک پتا نہیں چل سکا۔ یہ ایک فیک یا جعلی ویڈیو تھی، جس نے برطانیہ کی مسلمان اور پاکستانی کمیونٹی کو آزمائش میں ڈال دیا اور اسے لاہور میں مقیم ایک شخص نے اَپ لوڈ کیا تھا، جس کا اس پورے قضیے سے دُور دُور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ وہ شخص صرف ویڈیو وائرل کر کے پیسا کمانا اور شُہرت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ تاہم، اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک فیک نیوز یا ویڈیو کیا قیامت ڈھا سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ اِن دنوں مغرب، بالخصوص یورپ اور امریکا میں قوم پرستی کی لہر عروج پر ہے اور یہ کسی بھی وقت ایک بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ اب پچاس سال پُرانا انسانی حقوق اوراظہارِ رائے کی آزادی کا زمانہ نہیں رہا، بلکہ سوشل میڈیا کی وجہ سے آزادیٔ اظہارِ رائے کو گزند پہنچ رہی ہے۔ اس ضمن میں امریکی صدر، ڈونالڈ ٹرمپ اور سیکریٹری آف اسٹیٹ یہ کہہ چُکے ہیں کہ اگر کسی بھی تارکِ وطن نےسوشل میڈیا پر امریکا کے خلاف مواد شایع کیا، تو وہ برسوں بعد بھی قابلِ گرفت ہوگا اور اُسے فوراً امریکا سے نکال دیا جائے گا۔
امریکی حُکّام کےمطابق، تارکینِ وطن امریکا میں مہمان ہیں اور اُن کے لیے کسی تحریک یا نظریے کا پرچار جُرم ہے اور اس کی سزا مُلک بدری ہے۔ ان حالات میں امریکا میں مقیم تارکینِ وطن کو خاصی احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ آج امریکا کے اعلیٰ ترین حُکّام اپنے آئین کی پہلی ترمیم کو، جس کا تعلق آزادیٔ اظہارِ رائے سے ہے، تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور وہاں احتجاج کرناجُرم بن گیا ہے، جس کی سزا ’’دیس نکالا‘‘ ہے۔
دوسری جانب فیک نیوز کا بڑھتا ہوا رجحان پاکستان کی سلامتی و استحکام کے لیے بھی ایک بہت بڑا خطرہ بن چُکا ہے۔ آج پاکستان قوم اندورنی طور پر انتشار اور بیرونی طور پر دہشت گردی کا شکار ہے اور ایسے میں فیک نیوز جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں۔ سمندر پار پاکستانیوں کو اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے، کیوں کہ سوشل میڈیا کا بےجا اور بِلا سوچے سمجھے استعمال اُن کا پسندیدہ مشغلہ بن چُکاہے، جس سےمُلکی امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔
’’فیک نیوز‘‘ سے مُراد غیر حقیقی یا جُھوٹی خبر ہے۔ اگر اس کے تاریخی پس منظر میں جائیں، تو یہ ایک مجرمانہ فعل ہے اور برطانیہ میں فیک نیوز شایع و نشر کرنے پر سخت سزا دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آج کل ’’وائرل‘‘ کی اصطلاح بہت استعمال ہورہی ہے۔ لفظ، وائرل، وائرس سے نکلا ہے اور کورونا وائرس کی تباہ کاریاں تو ہم سب دیکھ ہی چُکے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ فیک نیوز کا وائرل ہونا بھی ایک بیماری ہی ہے، جس میں مبتلا قوم وینٹی لیٹر پرچلی جاتی ہے اور بیماری یا جُرم کا علاج ویکسین اور سزا دونوں سے کرنا پڑتا ہے اور جو اقوام اس ’’بیماری‘‘ کا علاج نہیں کرتیں، اُنہیں پھر اس کی قیمت تباہی و بربادی کی صُورت چُکانی پڑتی ہے۔ ماضی میں جرمنی کے فاشسٹ حُکم راں، ہٹلر کےایک نہایت شاطر وزیر، گوئبلز نے اپنے لیڈرکو ’’پاپولسٹ لیڈر‘‘ بنانے کے لیے قصیدہ خوانی کی ایک نئی قسم کو فروغ دے کرانتہا پر پہنچا دیا تھا، جسے ’’پراپیگنڈے‘‘ کا نام دیا گیا۔ گوئبلز کا ماننا تھا کہ اگر ایک جھوٹ کو سو بار دہرایا جائے، تو عام لوگ اُسے سچ ماننے لگتے ہیں۔
اپنے اِس واہیات فلسفے کوعملی شکل دینے کے لیے گوئبلز نے ہزاروں نوجوانوں کو جُھوٹ بولنے کی باقاعدہ تربیت دی اور جُھوٹوں کی اس فوج نے پورے جرمن معاشرے کو شخصیت پرستی کی سیاست میں لتھیڑ کردیا۔ گوئبلز نے ہٹلر کو دیوتا بنا دیا کہ جس سے کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی تھی اور جرمن قوم جُھوٹ کے اس سحر میں گرفتار ہوکر ہٹلر کو لافانی تصوّرکرنے لگی، لیکن پھر دُنیا نے ہٹلر کا عبرت ناک انجام دیکھا کہ جرمن اپنے جس لیڈر کے مافوق الفطرت ہونے کی داستانیں سُناتے تھے، وہ اپنی ہی گولی سے ایک بنکرمیں ہلاک ہوکرذلّت و رسوائی کا نشان بن گیا۔
آج اُسی پراپیگنڈے نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نئی شکل اختیارکرلی ہے، جسے فیک نیوز کا نام دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا اس کا بنیادی ٹُول اور انٹرنیٹ اس کی راہ داری ہے۔ آج پاکستان میں یہ بیماری یا جُرم سرایت کرچُکا ہے۔ بد قسمتی سے چند برس قبل ہمارے مُلک کے مقتدر اداروں نے فیک نیوز کی سرپرستی کی اور نوجوانوں کو اس کی باقاعدہ تربیت دی۔ اُنہوں نے پراپیگنڈا کرنے یا جُھوٹ پھیلانے والوں کو صحافی کا لبادہ پہنایا اور اُنہیں اس قدر معروف کیا کہ عوام انہیں معتبر صحافی تسلیم کرنے لگے۔
اب یہی لوگ عام آدمی کے ذہن پر سوار اور طاقت وَر اداروں اور پوری قوم کے لیے آزمائش بن چُکے ہیں۔ گوئبلز کی جُھوٹی خبر وائرل ہونے میں ہفتے لگتے تھے، کیوں کہ اُس دَورمیں ذرائع ابلاغ اس قدر تیزرفتار نہیں تھے، جب کہ آج چند سیکنڈز ہی میں فیک نیوز وائرل ہوجاتی ہے اورعام افراد تو کُجا، مُلک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی سچّی اور جُھوٹی خبر میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچُکے ہیں۔ یہ کوئی سُنی سُنائی بات نہیں، بلکہ آپ خُود تعلیمی اداروں، سرکاری دفاتر اور نجی اداروں میں اس کا تجربہ کرسکتے ہیں۔
آج پیسا کمانے کے لالچ میں جُھوٹی خبریں اور جعلی ویڈیوز وائرل کرکے اخلاقیات کی تمام حدود پامال کی جارہی ہیں، لیکن اس کا نتیجہ مایوسی کی صُورت میں برآمد ہوگا۔ آج ایک عاقبت نااندیش طبقہ مُلک کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو یہ باور کروا رہا ہے کہ اُن کا مستقبل بیرونِ مُلک ہے، کیوں کہ پاکستان کا مستقبل تاریک ہے اور یہاں اُن کے آگے بڑھنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ہر مُلک میں کچھ نہ کچھ خرابیاں پائی جاتی ہیں، مگر ہمارے معاشرے میں مخالفت کو سیاسی عداوت اور مُلک دشمنی میں تبدیل کردیا گیا ہے، جس سےہماری سماجی بُنت کوغیرمعمولی نقصان پہنچا ہے۔
جُھوٹے پراپیگنڈے کے سبب آج بالخصوص نوجوانوں کا ہر فرد اور ادارے سے اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ وہ قنوطیت پسند ہوچُکے ہیں۔ اُن کے پاس کوئی ویژن ہے اور نہ تعمیر و ترقّی کا کوئی عزم و خواہش۔ اُن کی تعمیر و ترقّی صرف ایک فرد اور نظریے سے وابستہ ہے، جو ایک سراب، افسانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ افسوس کہ ہم نے عقل کا دامن چھوڑدیا ہے اور اپنی خواہشات پر مبنی چھوٹی خبروں پریقین رکھتےہیں۔ ؎ وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا… کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا۔
شخصیت پرستی کے شکار افراد کو آج یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ دُنیا بَھر میں پھیلی قوم پرستی کی لہر نے بیرونِ مُلک مقیم اُن کے اہلِ وطن کو غیرمُلکیوں کی نظر میں کس قدر قابلِ نفرت بنا دیا ہے۔ امریکی صدر، ڈونالڈ ٹرمپ آئے روز نئے ایگزیکیٹیو آرڈرز جاری کر رہے ہیں، جن سے معمولی سا اختلاف کرنے والوں کو نہ صرف ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے، بلکہ ذلیل و رُسوا کرکے جنگل میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیز کے سبب امریکا میں مقیم تارکینِ وطن خوف اور تشویش کا شکار ہیں اور اگر وہ احتجاج کریں گے، تو انہیں مُلک بدر کر دیا جائے گا۔
یورپ اور برطانیہ بھی تیزی سے اسی جانب بڑھ رہےہیں۔ ایسی صُورت میں سوشل میڈیا پر زہریلا اور نفرت انگیزمواد دیکھ کر تارکینِ وطن پرکیا گزر رہی ہوگی، حالاں کہ ہم سمندرپارپاکستانیوں کی مشکلات اور جدوجہد سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ایسے میں اگر مُلک میں انقلاب لانے کے خواہش مند ’’پناہ گزین‘‘ بیرونِ مُلک موجود پاکستانی کمیونٹی کے حالات بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کریں، تو یہ یقیناً کمال کی بات ہوگی۔
یاد رہے کہ آج بھی پاکستانیوں کا شمار برطانیہ اور امریکا کی پس ماندہ ترین کمیونیٹیز میں ہوتا ہے، نیز ہر اسکینڈل میں اُن کا نام سرِفہرست ہوتا ہے اور اب فیک نیوز کا عفریت اُنہیں نگل رہا ہے، جب کہ اس کے برعکس چینی اور بھارتی تارکینِ وطن عزم و ہمّت اور حُبّ الوطنی کی روشن مثال ہیں۔
آج نہ صرف چینی اور بھارتی باشندے سیاسی میدان میں امریکا اور برطانیہ کی قیادت کر رہے ہیں، بلکہ تقریباً 60 فی صد دیو قامت آئی ٹی کمپنیز کے کرتا دھرتا بھی ہیں، جب کہ ہمارا یہ حال ہےکہ اوکسفرڈ اورنوبیل پرائزکی جھوٹی خبریں وائرل کر کے خوشیاں مناتے ہیں اور پھر ویسے بھی جن دو پاکستانی شخصیات نے نوبیل انعام حاصل کیا، پاکستانی قوم نے فوراً فیک نیوز پھیلا کر اُنہیں بھی متنازع بنا دیا۔
اس وقت پاکستان کو اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے اور ایسی صُورتِ حال میں مزید خطرات کو دعوت دینا مُلک کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ یاد رہے کہ فیک نیوز کا بنیادی مقصد ہیجان برپا، ذہن مفلوج اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرنا ہوتا ہے۔ غیر حقیقی خبر یا واقعے پر یقین کرنے والا فرد ایک فرضی دُنیا میں رہنے لگتا ہے۔ اُسےصرف وہی خبرسچ لگتی ہے کہ جسے فیک نیوز کے خالق نے تخلیق کیا ہو۔ ترقّی یافتہ اقوام نے نہایت سوچ سمجھ کر سوشل میڈیا کا ہتھیار ڈیزائن کیا ہے۔
یعنی اگر کسی قوم کو تباہ کرنا ہے، تو اُسے ایک ایسی تخیّلاتی دُنیا میں پہنچا دیا جائے کہ جہاں دیوتا اور پریاں رہتی ہوں اور جادوگروں کی ایک پُھونک سے محل کھڑے ہو جائیں اور پھر ذہنی انتشار کی شکار قوم کو کوئی بھی قابو کرسکتا ہے۔ یہ ایک آزمودہ نسخہ ہے، جس کی مثال ہم نے ہٹلر کے جرمنی کی صُورت پیش کی اور اس کا انجام بھی بتا دیا۔ واضح رہے کہ فیک نیوز کئی نسلوں کو مفلوج اور جنونیت میں مبتلا کردیتی ہیں۔ اب پاکستانی اہلِ دانش اور ٹیکنالوجی اور میڈیا کے ماہرین کو بیک وقت ایک ایسی ویکسین تیار کرنےکی ضرورت ہےکہ جو ایک دفاعی حصار کا کام کرے ، جس سے ٹکرا کر فیک نیوز ریزہ ریزہ ہو جائیں۔
نیز، قانون کی ایسی عمل داری ہو کہ فیک نیوز پھیلانے والوں کو سزا دینے میں ذرہ بھر تاخیر نہ کی جائے۔ انسانی حقوق اوراظہارِ رائےکی آزادی حقیقی اور قومی مفادات کے تابع ہونی چاہیے اور اسے چند ہزار سوشل میڈیا ہینڈلرز اور یوٹیوبرز کا یرغمال نہیں بننا چاہیے۔ فیک نیوز کے مقابلے کے لیے سوشل میڈیا، روایتی میڈیا اور تعلیمی اداروں میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اِس ضمن میں ہمیں تربیت یافتہ، معتبر اور پروفیشنل افراد درکار ہیں۔