• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی امریکی صدر سے ملاقات کیسے ارینج کی گئی

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) وائٹ ہاؤس میں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے درمیان ظہرانے کی ملاقات اور بعدازاں اوول آفس کا دورہ، وقت، اہمیت اور شدت کے لحاظ سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں تہلکہ خیز قرار دیا جا رہا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر اور صدر ٹرمپ کی یہ ملاقات ایک گھنٹے کی طے تھی مگر دو گھنٹے سے زائد جاری رہی۔ اسے ایک غیر معمولی اور تاریخی واقعہ سمجھا جا رہا ہے۔ اس ملاقات کے انتظام کیلئے کئی افراد نے پسِ پردہ اہم کردار ادا کیا جس کا مقصد دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانا تھا۔ یہ ملاقات نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر اور پاکستان کی اندرونی سیاست، بالخصوص تحریک انصاف کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہے۔ اس نمائندے نے اس ملاقات کے انتظامات سے واقف تین معتبر ذرائع سے گفتگو کی۔ ذرائع کے مطابق، تین ہفتے قبل ایک اعلیٰ انٹیلی جنس افسر (میجر جنرل رینک) واشنگٹن پہنچے اور ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں، جس سے صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی ملاقات کی راہ ہموار ہوئی۔ لیکن اصل پیشرفت اس وقت ہوئی جب صدر ٹرمپ کے قریبی اتحادی اور مشرقِ وسطیٰ کیلئے ان کے ایلچی اسٹیو ویٹکوف نے ذاتی حیثیت میں کوششیں کیں۔ ویٹکوف صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات کے دوران موجود تھے۔ اس ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ سینیٹر مارکو روبیو اور پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل عاصم ملک بھی شریک تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس ملاقات کا انتظام مشرق وسطیٰ میں مقیم ایک پاکستانی نژاد کاروباری شخصیت نے کیا، جس کے ویٹکوف اور خلیجی شاہی خاندانوں سے قریبی تعلقات ہیں۔ متعدد فون کالز اور پریزنٹیشنز کے بعد بالآخر ملاقات کا وقت طے پایا۔ اس نمائندے کو ملاقات کے اعلان سے کم از کم 36؍ گھنٹے قبل ہی اس ملاقات کے انعقاد کی پیشگی اطلاع دی گئی تھی۔ پاکستانی انٹیلی جنس افسر نے کئی مرتبہ واشنگٹن جا کر امریکی حکام اور ٹرمپ کے قریبی سمجھے جانے والے پاکستانی نژاد افراد سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد صرف فیلڈ مارشل کے دورے کے حوالے سے بات چیت نہیں تھا بلکہ عمران خان کے حامیوں کی جانب سے امریکی سینیٹرز کی مدد سے چلائی جانے والی مہم کا توڑ بھی تھا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر امریکا سے قبل متحدہ عرب امارات میں موجود تھے، جہاں سے وہ سینٹ کام کی دعوت پر امریکا روانہ ہوئے۔ ان کے طے شدہ شیڈول کے مطابق انہیں سینٹ کام اور پینٹاگون کے حکام سے ملاقاتیں کرنا تھیں لیکن ان کا پروگرام ان کی واشنگٹن آمد سے چند گھنٹے قبل اچانک تبدیل کر کے صدر ٹرمپ سے ملاقات بھی شیڈول میں شامل کر دی گئی۔ یہ سب کچھ پسِ پردہ سفارت کاری کا شاندار مظاہرہ تھا۔ امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں یہ قربت اچانک پیدا نہیں ہوئی۔ چند ماہ قبل جب ڈونلڈ ٹرمپ بھاری اکثریت سے دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو یہ خدشات تھے کہ وہ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کریں گے یا پاکستان کے معاملات میں مداخلت کریں گے، لیکن اس کے برعکس جو ہوا وہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کیلئے باعثِ اطمینان تھا۔ 15 جنوری 2025 کو اسی نمائندے نے انکشاف کیا تھا کہ ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ایک ہیج فنڈ مینیجر اور ٹرمپ فیملی کے کاروباری شراکت دار نے دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے ٹرمپ کو پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کا مشورہ دیا تھا۔ دو ہفتے بعد وہ اسلام آباد آئے اور وزیراعظم شہباز شریف سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ممکن ہے ٹرمپ کے قریبی ساتھی رچرڈ گرینل کو عمران خان کی رہائی سے متعلق مہم میں گمراہ کیا گیا ہو، جو امریکا میں سرگرم ایک لابی کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے نمائندوں اور حکام کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا، جن میں کرپٹو کرنسی، نایاب معدنیات، اور تجارتی تعاون پر بات چیت ہوئی۔ پاکستان اور امریکا کے بڑھتے تعلقات کی اگلی بڑی تصویر اس وقت سامنے آئی جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا اور صدر ٹرمپ نے غیر جانبدار رہتے ہوئے دونوں ممالک سے پیچھے ہٹنے کی اپیل کی، جس پر پاکستانی عوام نے انہیں سراہا جبکہ بھارتی حکومت اور مودی کے حامیوں نے تنقید کی۔ ذرائع کے مطابق، فیلڈ مارشل عاصم منیر اور صدر ٹرمپ کی ٹیموں نے معدنیات، کرپٹو کرنسی، تیل و گیس کی تلاش، مائننگ، ڈیٹا سینٹرز، بٹ کوائن مائننگ، رئیل اسٹیٹ اور پاکستان کی برآمدات کے فروغ جیسے اہم امور پر اسٹریٹیجک اتحاد کی بات کی۔

اہم خبریں سے مزید