'اب امریکی زیادہ وقت اکیلے گزارتے ہیں اس اکیلے پن کی وجہ سے انکی شخصیت بدل رہی ہے، مزاج تبدیل ہو رہا ہے، انکی سیاست میں بھی تغیر آ رہا ہے حتیٰ کہ حقائق سے ان کے تعلق کی نوعیت بھی بدل رہی ہے۔ 150سالہ قدیم میگزین اٹلانٹک نے اپنے تازہ شمارے میں موجودہ صدی کو (اینٹی سوشل) سماج مخالف صدی قرار دیا ہے۔ آپ ایسے میں خود غور کر لیجئے کہ فرد کی تنہائی کے اس عالم میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص وائٹ ہاؤس میں صدر کی حیثیت سے فیصلہ کر سکتا ہے وہاں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے میں حکومتی اختیارات شخصی اقتدار کے ہتھیار بن جاتے ہیں پھر اقدار پر سمجھوتے ہوتے ہیں، روایات کو پامال کیا جاتا ہے۔
کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ چلتی ہوئی جنگوں کو رکوانے کیلئے آئے تھے مگر اب چار جولائی کو جب امریکہ کا یوم آزادی آنیوالا ہے اس وقت سے پہلے امریکہ ایک خود مختار ملک ایران پر جارحیت کر چکا ہے دنیا بھر سے مذمت ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے صدر بش عراق میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے ہتھیاروں کا نعرہ لگا کر وہاں کی تہذیب کو کچل چکے ہیں مشرق وسطیٰ گویا کہ اب امریکہ کی مفتوحہ سرزمین ہے صدر ٹرمپ کے حالیہ دورے میں بھی یہی ثابت ہوا ۔امن کے نام پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے اربوں ڈالر کے سودے کیے گئے حالانکہ اسرائیل دو اڑھائی سال سے غزہ پر بم برسا رہا تھا 60 ہزار سے زیادہ نہتے شہریوں کی جان لے چکا تھا مقصد اس پٹی کو خالی کروانا ہے۔ صدر ٹرمپ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کو لیبیا میں آباد کروائینگے۔ امریکہ، فلسطین، اسرائیل، ایران سب اقوام متحدہ کے برابر کے ارکان ہیں کسی کو بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کے معاملات میں مداخلت کرے۔ صدر ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ رکوا کر جو خراج تحسین حاصل کیا تھا وہ ایران پر براہ راست حملہ کر کے کھو دیا ہے۔ پاکستان میں اکثریت فلسطین کی خود مختاری اور آزادی پر جان چھڑکتی ہے ۔1948 سے ہی ہم کشمیر کیساتھ ساتھ فلسطین کی آزادی اور خود مختاری کیلئے دعائیں کرتے آرہے ہیں۔ مجھے اتوار کے روز اپنے اس مستقبل سے ملنے کے مواقع ملے جو اس وقت 18سے 28سال تک کی عمر کے درمیان تعلیم کے ذریعے قابلیت اور اہلیت حاصل کر رہا ہے۔ میں نوجوانوں کی آنکھوں میں ایک والہانہ چمک دیکھ رہا ہوں اور اس چمک میں پاکستان کے سوویں سال کی خوشیاں بھی جگمگا رہی ہیں، گاؤن پہنے یہ نوجوان 2047ء میں 40سے 50سال کے ہونگے پاکستان کی تقدیر کے فیصلے یہی کر رہے ہونگے۔ ان میں کچھ پروفیسر ہونگے، کچھ اسکولوں میں اساتذہ، کچھ ڈپٹی کمشنر، کچھ کسٹم میں، کچھ انکم ٹیکس میں۔
کراچی ایکسپو سینٹر میں اتوار کو بھی رونقیں لگی ہیں۔ جنگ میڈیا گروپ کی طرف سے ایجوکیشن ایکسپو کا اہتمام کیا گیا ہے۔ سر سید یونیورسٹی برائے انجینئرنگ، ضیاء الدین یونیورسٹی، سہیل یونیورسٹی، محمد علی جناح یونیورسٹی اور دوسرے تعلیمی ادارے نوجوانوں کیلئے کشش کا باعث ہیں۔ مجھے تو الخدمت کے رضوان ایدھی نے مستقبل کی اس دنیا میں آنیکی دعوت دی تھی۔ میں جو ہمیشہ اتوار کے کالم میں دعوت دیتا ہوں کہ آج دوپہر کا کھانا اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہووں دامادوں کیساتھ کھائیں۔ آج جہاں اتوار کی دوپہر گزر رہی ہے یہاں بھی سب میرے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، بہوئیں داماد موجود ہیں۔ میں اپنی بیگم کے ہمراہ ان دمکتی پیشانیوں کو دیکھ رہا ہوں۔ الخدمت کے ’’بنو قابل‘‘ پروگرام کو اب پورے ملک میں پذیرائی مل رہی ہے 55 سالہ حافظ نعیم الرحمن نے یہ پروگرام شروع کیا تھا اس وقت وہ صرف کراچی جماعت اسلامی کے امیر تھے لیکن انکو اپنی منزل آسمانوں پر نظر آتی تھی انکا ملی تدبر دیکھ کر آفاقی بصیرت جان کر جماعت اسلامی کے کارکنوں نے انکو پورے پاکستان کیلئے امیر منتخب کیا۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جسکے کنونشن باقاعدگی سے منعقد ہوتے ہیں بنو قابل کے اس خیال کا دائرہ اب واہگہ سے گوادر تک پھیل چکا ہے۔ ہفتہ 21 جون کا دن بیٹیوں کیلئے تھا ان میں سرٹیفکیٹ بانٹے گئے۔ آج کراچی کے چار ہزار بیٹوں میں سرٹیفکیٹ بٹیں گے۔ اب بنو قابل 55شہروں میں نوجوانوں کو مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اہل بنا رہا ہے تربیت کا یہ سلسلہ میٹرک کے فورا ًبعد شروع ہو جاتا ہے۔ کراچی کے اب تک 50ہزار نوجوان تربیت پا کر عملی کام کا آغاز کر چکے ہیں اور یہ نوجوان زیادہ تر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ مڈل کلاس ہی کسی ملک میں تبدیلی لاتی ہے عام طور پر کلاسز تین مہینے کی ہوتی ہیں اور ہر چھ مہینے بعد بنو قابل کیلئے نوجوانوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔
ایکسپو سینٹر میں ایک راہداری میں ہماری تربیت یافتہ بیٹیوں نے اپنے پروجیکٹوں کی نمائش شروع کر رکھی ہے۔ راشد قریشی ایگزیکٹو ڈائریکٹر الخدمت کراچی فخریہ انداز میں اس انتہائی اہم منصوبے پر روشنی ڈال رہے ہیں ۔الخدمت کراچی کے کوآرڈینیٹر منظر عالم صاحب قدم قدم پر ہماری رہنمائی کر رہے ہیں۔ اب بنو قابل ایک اہم ادارے کی شکل اختیار کر چکا ہے جسکے باقاعدہ چیئرمین ہیں سی ای او ہیں۔ نوجوان رضاکاروں کی بڑی تعداد پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنا رہی ہے اس منصوبے میں جدید ٹیکنالوجی سے تو استفادہ کیا ہی جا رہا ہے لیکن روایتی ورثوں، اقدار آداب کا خیال بھی رکھا جا رہا ہے۔ ہزاروں پاکستانی نوجوان بیٹے بیٹیاں 2022ء سے انفرادی توانائی حاصل کر کے اب قوم کی توانائی بن رہے ہیں۔ الخدمت کراچی کے چیئرمین نوید علی بیگ بھی اپنے تجربے اور مشاہدے کو بروئے کار لا رہے ہیں میٹرک کے بعد پہلے ٹیسٹ ہوتا ہے پھر انٹرویو پھر کورس کی تربیت ۔
پاکستان سنچری میں صرف 22سال رہ گئے ہیں جماعت اسلامی کے فلاحی ادارے الخدمت نے تو پاکستان کی 60فیصد آبادی کی باقاعدہ تربیت شروع کر دی ہے 22 سال بعد بنو قابل کے تربیت یافتہ لاکھوں نوجوان پورے ملک میں اہم عہدوں پر فائز ہونگے۔ حافظ نعیم الرحمن اس وقت 77 سال کے ہوں گے۔کیا پاکستان مسلم لیگ نون ،پاکستان پیپلز پارٹی ،پاکستان تحریک انصاف ،جمعیت علماء اسلام اور متحدہ قومی موومنٹ نوجوانوں کی تربیت میں حصہ لینے کو اپنا قومی فریضہ نہیں سمجھتیں؟