ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روز تک جاری رہنے والی تباہ کن جنگ بالآخر غیر روایتی اور حیران کن انداز میں ختم ہوگئی۔
ایسے وقت میں جب پوری دنیا ایک بڑے علاقائی تصادم کے دہانے پر کھڑی تھی، جنگ بندی کا اعلان کسی اقوام متحدہ یا عالمی سفارتی تنظیم کی طرف سے نہیں بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے سامنے آیا۔
انہوں نے لکھا، ’خدا ایران کو سلامت رکھے، خدا اسرائیل کو سلامت رکھے، خدا مشرق وسطیٰ کو سلامت رکھے، خدا امریکہ کو سلامت رکھے اور خدا دنیا کو سلامت رکھے۔‘
یہی پہلو اس جنگ کو غیرمعمولی اور اس کے اختتام کو سیاسی طور پر پُراثر بناتا ہے۔
ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ایران اور اسرائیل 6 گھنٹوں کے اندر اپنی کارروائیاں روک دیں گے، پہلے ایران اور پھر 12 گھنٹوں بعد اسرائیل مکمل جنگ بندی کرے گا، جس کے 24 گھنٹے کے بعد اسے عالمی سطح پر ’12 روزہ جنگ‘ کے اختتام کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔
رائٹرز، دی گارڈین، اے پی جیسے معتبر بین الاقوامی اداروں نے اس اعلان کو رپورٹ کیا اور اسے ’ایک حیران کن ثالثی اقدام‘ قرار دیا لیکن یہ سادہ سا اعلان، دراصل سفارتی شطرنج کی وہ چال تھی جس نے کئی پردے چاک کیے اور کئی مقاصد حاصل کر لیے۔
اس جنگ میں اگر نقصان کی بات کی جائے تو ایران کو سب سے زیادہ جانی اور عسکری نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ رائٹرز کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد 224 سے 865 کے درمیان رہی، جبکہ انسانی حقوق کی تنظیم (HRANA) نے 3 ہزار سے زائد زخمیوں کی تصدیق کی ہے۔ درجنوں نیوکلیئر سائنسدان، پاسدارانِ انقلاب کے افسران اور اہم فوجی تنصیبات تباہ ہو گئیں۔
دوسری جانب اسرائیل میں 24 ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہوئے۔ مالی نقصان بھی یکطرفہ نہ تھا۔ وال اسٹریٹ جرنل اور ٹائم میگزین کے مطابق اسرائیل نے دفاع پر روزانہ 200 سے 400 ملین ڈالر خرچ کیے، جبکہ ایران کی مالی لاگت کا تخمینہ 80 سے 100 ملین ڈالر کے درمیان ہے۔
رائٹرز نے یہ بھی لکھا کہ خطے میں جنگی بیمہ میں اضافہ ہو گیا جس سے خلیجی تجارت اور تیل کی فراہمی متاثر ہوئی۔ سیاسی اور اخلاقی بیانیہ میں دونوں طرف سے ’فتح‘ کے دعوے سامنے آئے۔
اسرائیل نے کہا کہ اس نے ایران کے نیوکلیئر خطرے کو کم کیا، جبکہ ایران نے اسرائیلی دل پر جوابی حملے کرکے ’جرأت و وقار‘ کا مظاہرہ کیا لیکن اس تمام جنگی شور میں سب سے اہم کردار صدر ٹرمپ نے ادا کیا۔
سفارتی حلقوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا ٹرمپ نے اس جنگ بندی کا کریڈٹ لے کر نوبل امن انعام کےلیے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے؟ اگر یہ ایوارڈ ٹرمپ کو ملتا ہے، تو یہ پہلی بار ہو گا کہ کسی امریکی صدر نے ایک مشرق وسطیٰ جنگ کی ٹائمنگ، شدت اور اختتام کو اپنی حکمت عملی سے مکمل طور پر اپنے حق میں موڑ دیا ہو جبکہ اس سے قبل انہوں نے 2 ایٹمی قوتوں کے درمیان بھی ثالثی کرکے جنگ بندی کروائی۔
ذرائع یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں کوئی اور دوسری حکومت بھی ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کر سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ناصرف سیاسی طور پر ایک غیر معمولی اقدام ہوگا، بلکہ ٹرمپ کو عالمی سطح پر ایک ’پیغام بر امن‘ کی حیثیت دے گا۔
ان کی مذکورہ سوشل میڈیا پوسٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں آئندہ آنے والے نوبل انعام کی امید اور عالمی امیج کی ری برانڈنگ کا خواب چھپا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ثالثی میں پاکستان اور ترکی کے کردار کو پس پردہ اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ کئی رپورٹس کے مطابق پاکستان کی ایک خفیہ سفارتی ٹیم نے ایران کی عسکری قیادت کے ساتھ رابطے میں رہ کر اسرائیلی حملوں کے بعد صورت حال کو معتدل کرنے میں کردار ادا کیا جبکہ ترکی نے قطر اور عمان کے ذریعے مغربی چینلز کو استعمال کرتے ہوئے سیز فائر کی فضا پیدا کی۔
یہ وہی ڈپلومیسی ہے جسے ’ڈیپ اسٹیٹ کورآڈینیشن‘ کہا جاتا ہے، بظاہر سب کچھ بےقابو نظر آتا ہے لیکن پسِ پردہ ایک مکمل نقشہ ترتیب دیا جا رہا ہوتا ہے۔ جس طرح ماضی میں ٹرمپ نے پاک بھارت کشیدگی کے دوران ایک ٹویٹ سے خود کو ثالث بنا کر پیش کیا تھا، اسی طرح انہوں نے اس بار بھی ایران پر امریکی حملے اور اسرائیل کے حق میں بین السطور پالیسی بیانات دے کر خود کو امن کا علمبردار بنا دیا۔
عالمی برادری نے اس سیز فائر کا خیرمقدم ضرور کیا لیکن رائٹرز کے الفاظ میں مشرق وسطیٰ کی فضا اب بھی ’بارود آلود‘ ہے۔ یہ سیز فائر اصل میں ’سانس لینے کا وقفہ‘ ہے، امن کا عہد نہیں دشمنیاں اپنی جگہ موجود ہیں اور شکوک و شبہات کی فضا ابھی چھٹی نہیں۔
اگر دنیا واقعی اس سیز فائر کو امن کی شروعات مانتی ہے، تو شاید یہ امن بھی ٹرمپ کے لیے ایک انتخابی ہتھیار بن جائے اور اگر ایسا ہوا، تو پاکستان کی پسِ پردہ سفارتکاری اس تاریخ کا خاموش حصہ ضرور سمجھی جائے گی اور اس میں سب سے بڑا کردار پاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم منیر کا ہے، یہ شاید تاریخ لکھنے والوں کی نظر میں نہیں، مگر تاریخ بنانے والوں کی یادداشت میں ضرور یاد رہے گا۔