تحریر: نرجس ملک
ماڈل: ماہی
ملبوسات: راز کلیکشن بائے سلمان
آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر
کوآرڈی نیشن: محمّد وسیم
عکّاسی: ایم۔ کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
کہتے ہیں کہ ’’تاریخ کا پہلا دل کش دستاویزی جملہ، جو اِس وقت بھی ابوسمبل (مصر) میں موجود ایک اہرام کی اندرونی دیوار پر کندہ ہے، اُس وقت کے فرعون نے اپنی بیوی نیفرٹاری (Nefertari) کے لیے کہا اور بعد ازاں، پتھر کی دیوار پر کُھدوایا۔ جملہ کچھ یوں تھا۔ ’’سورج فقط تمہاری دید کی خاطر طلوع ہوتا ہے۔‘‘
مطلب، 13 ویں صدی قبل مسیح میں بھی عورتوں کو اُن کی جھوٹی، سچی یا کم از کم مبالغہ آرائی پر مبنی تعریف و توصیف سے خوش کرنے کی روایت موجود ہے۔ بعد ازاں، اِس ضمن میں کیا کیا نہ لاف زنی ہوئی، نثر و نظم کی صُورت، حُسنِ زن کی مدح سرائی میں کیسے کیسے زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے کہ سر کے بالوں سے لے کر پائوں کی چِھنگلی تک کی قصیدہ گوئی، مدحت نگاری کر کر کے ’’وجودِ زن‘‘ کو محض ’’شاہ کارِ حُسن‘‘ ہی بنا کے رکھ دیا، حالاں کہ ہر ایک عورت اپنی جگہ ایک مکمل انسان ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ایک مرد۔ ہر عورت اپنا ایک مکمل وجود، کامل ہستی رکھتی ہے، (اور یہاں مکمل، کامل سے مُراد ہرگز یہ نہیں کہ وہ صرف خوبیوں، اوصاف، گُنوں سے متصف ہے۔ مکمل انسان کا مطلب ہے، جو خوبیوں، خامیوں دونوں کا مجموعہ ہو کہ نقائص، عیوب سے مبرّا فرشتے توہوسکتے ہیں، انسان نہیں۔
جب انسان کا جوہر، ماہیت ہی ’’اچھائی و برائی کا اکٹھ‘‘ ٹھہرا، تو اُس کی کاملیت بھی تو یہی کہلائے گی) ہاں، یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ خواتین فطری طور پر، مَردوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی توصیف پسند واقع ہوئی ہیں اور نہ صرف توصیف پسند بلکہ کسی حد تک خوش فہم و خوش گمان بھی۔
ہر جھوٹی، سچّی تعریف پر آنکھ بند کرکے یقین ہی نہیں کرلیں گی، خُوب خُوش بھی ہوتی رہیں گی اور مدح خواں کو اپنا سب سے زیادہ مخلص و خیرخواہ، عاشقِ صادق بھی مان لیں گی۔ جب کہ عمومی طور پر اپنی اِسی کم زوری کے سبب بہت دھوکے کھاتی، بڑے نقصان بھی اُٹھاتی ہیں۔
گرچہ تہہ دل سے کی جانے والی سچّی تعریف اور چاپلوسی کے بیچ اتنا واضح فرق، اتنی بڑی لکیر موجود ہے کہ اندھے کو بھی محسوس ہو جاتی ہے، مگر کچھ لوگ دانستہ اسے دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ اس ضمن میں سراب ہی اُنہیں شباب، نایاب، لاجواب لگتا ہے۔ مگر ہم اِس دھوکا دہی، مکرو فریب کے سخت خلاف ہیں۔ ہمارا تو ماننا ہے، جو جیسا نظر آتا ہے، اُسے ویسا ہی بتانا اصل اِخلاص و بھلائی ہے۔
کسی کی خوبیاں، خامیاں اجاگر ہوں گی، تو وہ اُن کے نکھارو سنوار کی سعی کرے گا ناں، بصورتِ دیگر بے جا تحسین و آفرین کا خول تو شاہ دولے کے چوہے کے سر پر پہنائی جانے والی آہنی خَود (لوہے کی ٹوپی) ہی کے مثل ہوتا ہے، سوچنے سمجھنے کی سب صلاحیتیں مفقود کردینے والا۔ یہ جو ہم ایک طویل مدت سے ہر عُمر و طبقے کی خواتین کو موسم، موقع محل کی عین مناسبت سے آرائش و زیبائش، ہار سنگھار کی تعلیم دیئے چلے آرہے ہیں، تو اِسی لیے کہ خُود کسی دھوکے میں رہیں اور نہ کبھی کسی اور کے فریب، جھانسے میں آئیں۔
آپ کو اچھی طرح پتا ہونا چاہیے کہ آپ کتنی اچھی ہیں اور سج سنور کے کتنی اچھی لگ سکتی ہیں۔ کب، کس کے لیے، کیسے اور کتنا بننا سنورنا ہے اور کہاں صرف اور صرف مَن مرضی، اپنی ذات کی خوشی، اپنا جسمانی، ذہنی و روحانی سُکون اہمیت کا حامل، پہلی ترجیح قرار پانا چاہیے۔ روزمرّہ پہناووں سے لے کر کسی بھی موقعے، بڑی تقریب، حتیٰ کہ زندگی کے سب سے خاص الخاص دن تک کے لیے ’’لباس کے انتخاب کا فیصلہ‘‘ سو فی صد آپ کا اپنا ہونا چاہیے۔ اور یہ فیصلہ یقیناً ایک سو ایک فی صد درست بھی ہوگا، اگر آپ کی اپنی ’’شخصیت‘‘ سے مکمل واقفیت و آگہی ہوگی۔
چلیں، اب ذرا آج کی بزم پر نگاہ ڈال لیں۔ گرمی نے تو پوری دنیا ہی میں اخیر کی ہوئی ہے کہ حضرتِ انسان کی کارستانیوں کا (فطرت سے چھیڑ چھاڑ) نتیجہ آہستہ آہستہ سامنے آرہا ہے۔ اور اب اِن سخت موسموں سے مقابلے کا ایک ہی ہتھیار ہے، ہلکے پھلکے، ٹھنڈے ٹھار ملبوسات کا انتخاب۔ جیسا کہ ہماری آج کی محفل لان، کاٹن کے بالکل سادہ سے تھری پیس پہناووں سے مرصّع ہے۔
بہتے پانیوں، نیلگوں آسماں کی وسعتوں سے چُرائے بہت دوستانہ سے رنگ رائل بلیو میں لان کا تھری پیس ڈریس ہے، تو مہتاب کی کرنوں، شفق کی لالی سے ہم آہنگ سُرخ و نارنجی کے حسین کامبی نیشن میں بھی ایک سادہ سا پہناوا ہے۔ تربوزی رنگ میچنگ سیپریٹس اسٹائل میں تھری پیس لباس کی نُدرت ہے، تو آسمانی رنگ حسین و جمیل سے پرنٹ سے مزیّن لباس کے ساتھ گہرے نیلے دوپٹے کی جاذبیت کے بھی کیا ہی کہنے، جب کہ جامنی رنگ کے لیونڈر شیڈ اور پِیچ کے لائٹ سیلمون سے شیڈ میں سادہ سادہ، ٹھنڈے، اجلے پہناووں کی بہارنے تو گویا پوری محفل ہی کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔
اپنے رُوپ رنگ، قد کاٹھ، خال و خد اور مکمل شخصیت کی مناسبت سے اِن رنگ و انداز میں سے کچھ بھی منتخب کرلیں۔ آئینے میں خُود کو دیکھتے، سکھیوں سہیلیوں، پیاروں، چاہنے والوں سے مِلتے ملاتے کچھ یک سر نئے، اچھوتے اور بہت دل کش دستاویزی جملے کانوں میں رس گھولنے لگیں، توکچھ خاص عجب بات نہ ہوگی۔ اور وہ نسرین سیّد کے اشعار ہیں ناں ؎ سوال کرنا ضروری ہے آگہی کے لیے… مگر ہو آگہی آزار جب، سوال نہ کر… یہ تیرا خام تجسّس نہ تجھ کو بھٹکا دے… یہ ماجرا ہے توجّہ طلب، سوال نہ کر… ابھی تو شہرِ طلسمات میں ہے پہلا قدم… تُو آ گیا ہے تو کر صبر اب، سوال نہ کر… کہاں سے رنگ، دھنک، دھوپ، رُوپ میں اُتری… عطا ہے کس کی یہ البیلی چھب، سوال نہ کر… نہ پوچھ حرف ستاروں میں ڈھل گئے کیسے… سخن کو کیسے ملی تاب و تب، سوال نہ کر… یہاں تو بس سرِ تسلیم خم رہے نسرینؔ…یہ عشق ہے ذرا حدِ ادب سوال نہ کر۔ تو بس، آپ بھی سوال و جواب کے کسی بھی جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے بس’’ استفادے‘‘ پر فوکس رکھیں۔
نوٹ: 29 جون کے شمارے کے ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر ماڈل انمول راجپوت کا جو شُوٹ شایع ہوا، اُس کا میک اَپ "Bege Salon" اور فوٹوگرافی عرفان نجمی کی تھی۔ کریڈٹس میں سہواً دو نام غلط شایع ہوگئے۔