برطانیہ کی پوسٹ آفس کی تاریخ کا سب سے بڑا اور افسوس ناک اسکینڈل جسے ہورائزن اسکینڈل کہا جا رہا ہے، بالآخر سرکاری انکوائری کے بعد پوری شدت سے سامنے آ گیا۔
اس اسکینڈل میں 900 سے زائد پوسٹ ماسٹرز کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے ناصرف ان کی نوکریاں ختم کی گئیں، بلکہ درجنوں افراد کو جیل، مالی بربادی اور ذہنی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ تمام واقعات پوسٹ آفس کے کمپیوٹر سسٹم ہورائزن کی خرابی کی وجہ سے پیش آئے، جو جاپانی کمپنی فوجستو نے تیار کیا تھا۔
یہ سسٹم 1999ء میں متعارف کرایا گیا اور اس کے بعد برطانیہ بھر میں استعمال ہونے لگا لیکن اس سسٹم میں سنگین تکنیکی خامیاں موجود تھیں، جو ذیلی پوسٹ ماسٹروں کے کھاتوں میں غیر حقیقی مالی خسارے ظاہر کرتا رہا۔
سافٹ ویئر کی ان خرابیوں کے باوجود پوسٹ آفس انتظامیہ نے متاثرہ ملازمین کی بات سننے کے بجائے ان پر فراڈ، چوری اور بدعنوانی جیسے الزامات عائد کیے، 236 افراد کو قید کی سزا سنائی گئی جبکہ کئی افراد نے خودکشی کر لی، بعض کو معاشی طور پر تباہ کر دیا گیا اور کئی خاندان اجڑ گئے۔
ایک طویل قانونی جنگ کے بعد عدالت نے متاثرہ افراد کی بے گناہی ثابت کی۔
2021ء میں سرکاری سطح پر ہورائزن اسکینڈل انکوائری کا آغاز ہوا، جس نے حالیہ رپورٹ میں واضح کیا کہ پوسٹ آفس اور فوجتسو دونوں کو سسٹم کی خرابی کا علم تھا، مگر انہوں نے دانستہ طور پر سچ چھپایا اور مقدمات جاری رکھے۔
حکومت نے اب تک 1 ارب پاؤنڈ سے زائد معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے، کئی افراد کو باقاعدہ بری کیا جا چکا ہے، جبکہ دیگر کے مقدمات بھی ازسرِنو دیکھے جا رہے ہیں، اسکینڈل کا مرکزی کردار سمجھی جانے والی سابق سی ای او پولا وینلز پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
اس معاملے پر بننے والی ٹی وی سیریز مسٹربیٹس ورسز دی پوسٹ آفس نے اس مسئلے کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا جس کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھا کہ متاثرین کو جلد انصاف دیا جائے۔