ایسا نہیں کہ اچھے انسان ہمیشہ فرشتوں جیسی زندگی گزارتے ہوں گے۔انسان نہ روبوٹ ہے نہ فرشتہ بلکہ احساسات و جذبات رکھنے والی مخلوق ہے ۔جب اس کے مزاج اور رویے پر ناموافق گفتگو، ناگوار حالات اور تلخ تجربات اثر انداز ہوتے ہیں تو ردِعمل میں غصے یا ناراضی کا اظہار ایک فطری عمل ہوتا ہے۔ فرق صرف شدت اور اظہار کے انداز کا ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ تعلیم یافتہ اور مہذب تر ین لوگ بھی بعض اوقات غصے میں بہت سخت الفاظ استعمال کر جاتے ہیں۔ یہ سب نارمل ہے ۔مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب یہ رویہ عادت اور بدکلامی معمول بن جائے۔آجکل ایسی ہی صورت حال بنتی نظر آتی ہے۔ہم بدلتی قدروں پر زمانے کی چال کو موردِ الزام ٹھہرا کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ زمانہ خود کہاں کوئی چال چلتا ہے، کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی حوالے سے قصور وار توہم ہی ہوتے ہیں۔ عمل کا اختیار جسکے پاس ہوگا ذمہ داری بھی اسی کی ہو گی۔بچوں کی فطرت میں مثبت رویوں اور اقدار کو اجاگر کرنے کیلئے نصیحتوں اور ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے انکے سامنے مثبت عمل کرنا اور انکے ساتھ گہرا رابطہ ضروری ہوتاہے۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ کیسے دیکھتے دیکھتے چند سال میں ہماری اعلیٰ اخلاقی اور سماجی اقدار کا ڈھانچہ ہی تبدیل ہو کر رہ گیاہے۔سوشل میڈیا کے اسٹیج پر نمودار ہونے والے عجیب کرداروں نے صدیوں کی روایات کا دامن تار تار کر دیاہے۔صرف ویوز کیلئے گھروں کے اندر کا ماحول چوک پر رکھ دیا گیا ہے۔کبھی سٹھنیاں شادیوں پر بولی جاتی تھیں اب اْنھیں فحش گالیوں کا مقابلہ بنا کر اپ لوڈ کرنے کا نیا سلسلہ شروع ہو گیاہے ۔سیاسی پیروکار خواتین کے خواتین سیاستدانوں کیلئے لکھے ہوئے تضحیک اور تذلیل سے لتھڑے جملے پڑھ کر روح کانپ جاتی ہے۔زیادہ دکھ تب ہوتا ہے جب سماج میں اچھی شہرت رکھنے والے دانشور مختلف شعبوں میں اعلیٰ صلاحیتوں کا اظہار کرنے والی بیٹیوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے بے باکی اور دشنام طرازی کو بہادری سے تعبیر کرتے ہوئے اسکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ نئی نسل کے سامنےایسےسوشل میڈیا انفلوئنسرز ، ٹِک ٹاکرز اور سیاسی کارکنوں کو رول ماڈل بنا کر پیش کرنا ، جن کا کام گالی گلوچ ،الزام تراشی اور بے باک رویے ہوں اخلاقی نظام تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ سرکاری تقاریب میں ان لوگوں کو مہمان خصوصی بنایا جائے گا تو پھر لوگ پڑھنے اور کچھ بننے کی بجائے یہی کچھ بنیں گے۔ارد گرد پھیلا گند بھی نقصان پہنچاتا ہے لیکن گھر کے اندر ایسی صورتحال ہو تو سانس لینا دوبھر کر دیتا ہے۔پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر گالیوں کے زہریلے حملے دیکھ کر میں نے اپنے خاندان کی بچیوں پر نظر دوڑائی تو میری آنکھیں بھیگ گئیںدل شکرانہ ادا کرنے لگا۔پھر میں نے اپنے فیملی گروپ میں اپنی تمام بھتیجیوں بھانجیوں کے نام ایک خط لکھا شکرانے کا۔میں نے لکھا کہ میں آپ سب کی بہت ممنون ہوں کہ آپ پڑھائی کیساتھ ساتھ زندگی کی مثبت قدروں سے جڑی ہوئی ہو ، ایک لبرل خاندان کا حصہ ہوتے ہوئے آپ نے کبھی تہذیبی روایات اور اخلاقی اقدار کو ٹھیس نہیں پہنچائی ۔آپ میں سے کوئی بھی ان جدید بے راہ روی سے جڑی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ۔اگر آپ لوگ ایسا کرتے تو ہم آپ کو روک نہیں سکتے تھے کیونکہ آج کی نسل کو ہم سختی سے کسی کام سے منع کر سکتےہیں نہ ہمارے جڑے ہوئے ہاتھ ان کا ارادہ تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ تو ان کے اندر کی روشنی ہے جو انہیں مثبت راستے پر چلنے کی توفیق دیتی ہے۔میں نے اپنی بھابیوں، بہن ، بہنوئی اور بھائیوں کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنے بچوں سے رابطہ رکھا اور ان کی اچھی تربیت کو زندگی کا ترجیحی مقصد بنایا ۔ہم پوری دنیا کی زبانی کلامی فکر کی بجائے عملی طور پر صرف اپنے بچوں کوہی اچھا انسان بنا دیں تو معاشرہ خود سنورنے کے عمل میں شامل ہو جاتا ہے ۔ماں باپ کا کام بچوں کیلئے کھانے اور دیگر لوازمات کا انتظام کرناہی نہیں ہے ان کی اخلاقی تربیت اور ان کے اندر مثبت رویوں اور قدروں کی پرورش بھی ہے۔قد کے ساتھ اصولوں اور ضابطوں کا گراف بھی بڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ دشنام طرازی کا نیا ٹرینڈ ہماری مذہبی اور سماجی روایات میں کہیں فِٹ نہیں ہوتا۔ہمیں اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، گالی کا جواب گالی سے دے کر مطمئن نہیں ہونا بلکہ یہ سلسلہ ختم کروانا ہے۔سیاسی رہنما ؤں کو کسی پلیٹ فارم پر بیٹھ کر یہ ضرور طے کر لینا چاہیے کہ مخالفت کا ہر داؤ پیچ استعمال کریں لیکن اخلاقی قدروں کو پامال کرنے کی اجازت اپنے ورکروں کو ہرگز نہ دیں۔اسی معاشرے میں ان کی اولاد نے بھی زندگی گزارنی ہے اور کل انہیں بھی اس کے اسباب سے واسطہ پڑے گا۔سرکاری اور پرائیویٹ میڈیا پر ایسی لڑکیوں کو رول ماڈل کے طور پر متعارف کروانا چاہیے جنہوں نے زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنی ہمت اور جدوجہد سے اپنے مقصد کو حاصل کیا، اپنی شخصیت کو سنوارا اور ملک و قوم کی ترقی میں معاون کردار ادا کرنے کے قابل ہوئیں۔ٹین ایج بچیاں بڑی جلدی اثر قبول کرتی ہیں۔انکے سامنے تعلیم،سیاست، کھیل،ادب اور سول سروس میں کیپٹن ایمان درانی، ڈی ایس پی شہر بانو نقوی جیسی بیٹیوں کی مثالیں ہونی چاہئیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق اپنا نصب العین طے کر کے زندگی کے میدان میں اعتماد اور وقار سے سفرآغاز کر سکیں۔