آج اس کرہ ارض کو جس ابتری اور ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ہے۔ اس میں بنیادی کردار اپنے علم، شعور اور طاقت پر اِترانے والے صاحبِ عقل و اختیار انسان کا ہی ہے۔فطرت تو اپنے ازلی قوانین کی پابند ہے ، فطرت نے اصولوں سے روگردانی نہیں کی ، تجربات اور کھلواڑ انسان کی عادت ہے۔ جس نے اپنی طمع کے زہر سے اپنا اور فطرت کا دامن میلا کر دیا ہے۔انسان نے امارت کے ذریعے طاقتور بننے کی خواہش میں ہر وہ طریقہ اپنایا جو آگے چل کر نسلوں کی بربادی کا باعث بنا۔ زیادہ پیداوار کی طلب کیلئے بنجر زمینوں کو زیر کاشت لانے کی تدبیر کرنے کی بجائے زہریلی کھادوں اور صحت کیلئے نقصان دہ بیجوں کے ذریعے زمین کو نچوڑا گیا، ترقی یافتہ ملکوں کے سیانوں نے اپنے تجویز کردہ مہنگے دال دلیے اور دوائیاں فروخت کرنے کیلئے لوگوں کو سادہ اور دیسی خوراک سے دور کیا تو جسم میں بیماریوں کا جال بچھتا چلا گیا ،جس میں نہ صرف ہر چھوٹا بڑا جکڑا ہواہے بلکہ بہت سی دوائیاں روزمرہ خوراک کا حصہ بن چکی ہیں۔
آج کا انسان جو خود کو بہت بڑا پھنے خان سمجھتا ہے ، اس کا اندر بھی ملاوٹ اور کھادوں کی دیمک سے بھربھرا ہو چکا اور باہر کا ماحول بھی اس پر شدید نامہربان ہے،جہاں سانس لینا بھی دشوار ہو چکا ہے۔ یعنی اندر باہر سے دکھ نے اسے گھیرا ہواہے۔ ان سے مصنوعی بچت تو ممکن ہے مگر نجات نہیں۔گرمی سردی کی شدت، زلزلے، طوفانی ہوائیں، سیلابی بارشیں، گلیشیرز کا پگھلنا اور حبس زدہ فضائیں معمول بن چکے ہیں۔
ان سب کے سدباب کیلئے ہمیں سب سے زیادہ توجہ درخت لگانے پر مبذول کرنی ہے۔ درخت فطرت اور انسان کا محافظ ہے،درخت آکسیجن فراہم کرنے، موسمیاتی شدت کم کرنے ، زمین کو سایہ دینے،فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے گلوبل وارمنگ کو کم کرنے،بارش کو جذب کرکے سیلاب کی شدت کم کرنے، گرد، دھوئیں اور آلودگی کے ذرات کو فلٹر کرنے اور زمین کے کٹاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس لئے جو بھی کئی سالوں سے زمین بغیر کاشت پڑی ہے گورنمنٹ کو اس پر درخت لگانے کے احکامات جاری کردینے چاہئیں۔فطرت کی طرف سے عنایت کئے گئے مقامی درخت ماحول دوست ہونے کے علاوہ بہت سی بیماریوں کی دوا بھی ہوتے ہیں۔قدرت جو ہمیں پیکیج عطا کرتی ہے اْس میں مقامی خودرو درخت بھی شامل ہوتے ہیں۔ جو زمین کے مزاج اور وجود سے مفاہمت رکھتے ہیں۔ بیری، شیشم، نیم، کیکر، جامن ، پیپل ،برگد اور دھریک جیسے مقامی درخت ہمارے ماحول اور آب وہوا میں خوب پھلتے پھولتے ہیں۔
آم، جامن،بیری،پپیتا،مالٹا، کینو،لیموں،امرود اور انار نسبتاََ زیادہ کاربن جذب کرنے کے علاوہ خوراک میں بھی مددگار ہوتے ہیں اسلئے دیگر درختوں کے ساتھ پھلدار درخت بھی لگانے ضروری ہیں۔پاکستان نے چھانگا مانگا میں مصنوعی جنگل آباد کر کے ایک ریکارڈ اپنے نام کر رکھا ہے۔ آج ہمیں جس طرح کے سنگین حالات کا سامنا ہے حکومت کو ملک بھر میں سرکاری اداروں اور سول سوسائٹی کی مدد سے بنجر اور بغیر کاشت زمینوں پر چھوٹے مصنوعی جنگل (Artificial Forest) لگانے کا آغاز کرنا چاہیے۔ کم پانی میں زندہ رہنے والے،تیز دھوپ اور سخت آب و ہوا برداشت کرنے اور زمین کو زرخیز بنانے والےدرخت مثلاً سوہانجنا،کیکر ، بیری ،شیشم،نیم اور املتاس لگانے چاہئیں،جس زمین میں پانی کھڑا رہتاہو وہاں پاپولر یا سفیدہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔مصنوعی جنگلات نہ صرف ماحولیاتی بہتری کے لئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ مقامی لوگوں کو روزگار ، لکڑی اور پھل بھی مہیا کر سکتے ہیں۔
یادرکھیے درخت لگانا صرف ماحولیاتی ضرورت نہیں بلکہ قومی بقا کا تقاضا بھی بن چکا ہے۔ پی ایچ اے لاھور کی طرف سے’’ایک کال ملائیں، پودا اپنے گھر لگوائیں‘‘ہیلپ لائن نمبر 1399شروع کی گئی ہے ، جس کے تحت انار، آم، جامن، پٹاجن پلکن، رات کی رانی، شہتوت، نیم واشنگٹو نیا پام، چاندنا، ویو، کچنار، گل چین، املتاس، تیپیوبیا، جروفا اور ہار سنگھار کوئی سترہ اقسام کے پودے شہریوں کے گھروں میں لگائے جائیں گے۔پودوں کی اہمیت سے بے خبر لوگوں کو اس سے زیادہ کیا سہولت دی جاسکتی ہے۔ اصولاً تو گھروں میں پودےہمیں خود لگانے چاہئیںاور باہر بھی ۔ تاہم اب اس شاندار سہولت سے فائدہ اٹھائیے ، اپنے گھر کے صحن میں کم ازکم ایک دو پودوں کی گنجائش نکالئے ، پی ایچ اے کے راجا منصور احمد سے گزارش ہے کہ چھوٹے اور گنجان آباد محلوں کے گھروں میں بڑے درختوں کی گنجائش نہیں ہوتی ، براہ مہربانی ان کے لئے چھوٹے اور پھلدار پودے بھی مہیا کریں۔ رب کرے لاہور میں شروع ہونے والی مہم پاکستان کے ہر صوبے اور شہر تک رسائی حاصل کرے۔