• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ کتابیں جادوئی تاثیر رکھتی ہیں?۔مطالعہ شروع کروں تو تب تک توجہ کو پلک جھپکنے نہیں دیتیں جب تک مکمل نہ کرلوں۔ پھر کئی دن اس کے سحر میں گرفتار رہتی ہوں۔اس وقت اردو کے منفرد اور بے مثل شاعراحمد مشتاق کی خوبصورت کتاب ’گردِ مہتاب‘ میرے ساتھ ہے ،جسکے شعری حسن ، اچھوتے بیان ، تہذیبی وقار ،فکری گہرائی کی حامل سادگی ،رومانوی لب و لہجے اور ہجر و محبت سے گندھے جمالیاتی احساس کی سرشاری نے تن من مالا مال کر رکھا ہے۔ کلاسیکی روایت اور جدید حساسیت سے جڑت رکھنے والے احمد مشتاق ایک ایسے خوبصورت شاعرہیں جن پر کوئی چھاپ نہیں لگائی جاسکتی۔ جن کا شعر ان کے منفرد حوالے اور اچھوتے اسلوب کی گواہی ہے۔ شعر دیکھئے

خیر اوروں نے بھی چاہا تو ہے تجھ سا ہونا/یہ الگ بات کہ ممکن نہیں ایسا ہونا/ دیکھتا اور نہ ٹھہرتا تو کوئی بات بھی تھی /جِس نے دیکھا ہی نہیں اس سےخفا کیا ہونا/تجھ سے دوری میں بھی خوش رہتا ہوں پہلے کی طرح/بس کسی وقت برا لگتا ہے تنہا ہونا /یوں مری یاد میں محفوظ ہیں تیرے خدو خال /جس طرح دل میں کسی شے کی تمنا ہونا/زندگی معرکہ روح و بدن ہے مشتاق/عشق کے ساتھ ضروری ہے ہوس کا ہونا

زندگی کا بھرا میلہ چھوڑ کر جانے کا تصور ہر دل کو اداس کر دیتا ہے۔احمد مشتاق نےاس حقیقت کو تسلیم کرنے اور دل کے دلاسے کیلئے کائنات میں بکھرے فنا کے تمام رنگ جس خوبصورتی سے شعروں میں ڈھالے ہیں ملاحظہ کریں۔

جانا ہے جب سے دل کو ہے دھڑکا لگا ہوا /میں چھوڑ جاؤں گا یہ تماشا لگا ہوا/محفوظ دستبردِ زمانہ سے کچھ نہیں/ ہر شے کی گھات میں ہے یہ چیتا لگا ہوا/ افسردگی حسن سے اے دل نہ ہو ملول/ ہر روشنی کے ساتھ ہے سایہ لگا ہوا/تنہائی تو کسی کو میسر نہیں یہاں/ ہر راہرو کے ساتھ ہے رستہ لگا ہوا

رومانی احساسات میں ڈھلی غزل جو کئی ملن رْتوں اور ہجر موسموں کے ذائقوں سے لبریز ہے۔

مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقین رہتا ہے/ وہ اِسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے /جس کی سانسوں سے مہکتے تھے دَر و بام ترے/ اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے/ اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے/ اور اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے /روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے /عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے/دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن /عمر بھر کون جواں کون حسین رہتا ہے

کسی من پسند کتاب کا مطالعہ روحانی سرخوشی کا باعث ہوتا ہے اور یہ سرخوشی پی ڈی ایف کی بدولت نصیب نہیں ہوتی ، اسلئے کتاب کی اہمیت ہمیشہ مسلم رہے گی۔ چند دن قبل عباس تابش صاحب کے بڑے بھائی کی وفات پر تعزیت کی غرض سے مجلس ترقی ادب جاناہوا ، دعا کے بعد کتابوں کی بات چلی تو کھلا کہ اس سال مجلس کے پلیٹ فارم سے بیس کتب چھاپی گئی ہیں۔جن میں ہر ایک ادبی، ثقافتی اور تاریخی ورثے کی حامل ہونے کے باعث خصوصی اہمیت رکھتی ہے ،یہ وہ کتابیں ہیں جو ہمیں معروف پبلشرز کے شوکیسوں میں نظر نہیں آتیں۔اور اگر نظر آ بھی جائیں تو درج قیمتیں خوفزدہ کر دیتی ہیں۔ مجلس کی شائع کردہ تمام کتب نصف قیمت پر دستیاب ہیں اور یہ قیمت صرف چھ سو سے ایک ہزار تک ہے، یہی وجہ ہے کہ مجلس کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں اور سرکار کی رقم دوبارہ اکاؤنٹ میں جمع ہو کر اگلے منصوبوں کا حصہ بنتی ہے۔ میں نے گردِ مہتاب کے علاوہ کچھ اور کتابیں بھی یہیں سے خریدیں یقین کریں قیمت اتنی کم تھی کہ تحفہ ہی لگیں۔سوشل میڈیا کے ہیجان میں مبتلا لوگوں کو کتاب کی طرف متوجہ کرکے ملک و قوم کی تہذیبی، روحانی اور اخلاقی تربیت کرنیوالے ادارے یقیناً شاباش کے مستحق ہیں۔آخر میں احمد مشتاق کے روح کی تاروں کو چھیڑتے وحدت الوجود کے احساس سے لبریز شعر دیکھئے

جس نے ایجاد کیا روح کی سرشاری کو

جِسم کی جلوہ نمائی بھی ہنر اس کا ہے

راہ اس کی ہے تھکن اس کی ہے منزل اس کی

ہم کرائے کے مسافر ہیں سفر اس کا ہے

اپنا حصہ ہے فقط سایہ اشجار میں سیر

باغ اس کا ہے گل اس کے ہیں ثمر اس کا ہے

اجنبی لوگ ہیں اور ایک سے گھر ہیں سارے

کس سے پوچھیں کہ یہاں کون سا گھر اس کا ہے

تازہ ترین