پشاور(امجد صافی) وفاقی حکومت کی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم کے بعد ہائیکورٹ کے سینئر پیونی جج کی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان سے رکنیت ختم کرنےکے اقدام کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے اور اس ضمن میں دائر رٹ پٹیشن میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ اس اقدام کو آئین کے منافی قراردیکر اس پر عملدرآمد روکا جائے۔رٹ پٹیشن زرک عارف شاہ ایڈوکیٹ نے علی گوہر درانی ایڈووکیٹ کی وساطت سے دائر کی ہے ۔اس ضمن میں دائر رٹ پٹیشن میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور لاءاینڈ جسٹس ڈیپارٹمنٹ کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد آرٹیکل 175کے پیراگراف 2کے تحت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں ہائیکورٹ کے سینئر پیونی جج کی بحیثیت رکنیت کوتبدیل کرکے اس کی جگہ آئینی بنچ کے سربراہ کو متعارف کرایاگیا ہے اور اس طرح جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے 27جنوری 2025کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کرکے جوڈیشل کمیشن سے سینئر پیونی جج کو رکن کی حیثیت سے باہر کر دیا ہے ۔درخواست گزار کے مطابق اس اقدام کے بعد ملک کے تمام ہائیکورٹس کے سینئر پیونی ججز جوڈیشل کمیشن کے ممبرز نہیں ہونگے اوراس اقدام کو چیلنج کیا گیا ہے ۔رٹ میں موقف اختیار کیاگیاہے کہ آرٹیکل 175اے میں یہ ایک پرویژن بھی موجود ہے کہ یہ تب ہی موثر ہوگا جب آرٹیکل 202اے کے تحت آئینی بنچز بن جائیں، چونکہ اب تک آئینی بنچز نہیں بنے اس لیے سینئر پیونی ججز کی پرانی حیثیت برقراررہے گی اور وہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ممبرز رہیں گے۔فریقین کا یہ اقدام آئین کے 26ویں ترمیم کی روح کےساتھ ساتھ آئین کے خلاف بھی ہے۔ رٹ میں پاکستان کے سابقہ آئین کے مختلف شقوں اور آرٹیکلزکے علاوہ 1973کے آئین اور اس دوران آئین میں ہونے والے مختلف ترامیم کا بھی حوالہ دیاگیا ہے جس کی رو سے جوڈیشل کمیشن میں جوڈیشری کے ارکان کی تعداد زیادہ ہوگی۔ درخواست گزار کے مطابق ملک میں ایک آزاد عدلیہ تب ہی ممکن ہے جب اعلی عدلیہ کے ججز عدالتوں کے لئے ججز کی تعیناتی کی سفارش کرینگے نہ کہ ایگزیکٹیو ان کی تقرری و تعیناتی کرے تاہم 26ویں ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں اب ایگزیکٹیو کی حیثیت اکثریت جبکہ جوڈیشری اقلیت کی حیثیت رکھتی ہے لہذا عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ27جنوری 2025کا نوٹیفیکشن کالعدم قراردیکر آئینی بنچز کی عدم تشکیل تک جوڈیشل کمیشن سے سینئرپیونی جج کا انخلاءآئین وقانون کے خلاف قراردیا جائے ۔