اسلام آباد(صالح ظافر) سینئر سفارتکاروں اور بین الاقوامی امور کے ماہرین نے یاد دلایا ہے کہ بھارت کی حکمران انتہا پسند جماعت بی جے پی کو اندرونی سیاسی میدان میں نقصان ہوا ہے، جبکہ 2025 کے آغاز سے بھارت کی بین الاقوامی ساکھ اور مقام میں بھی خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بھارتی معاشرے میں سیاسی، سماجی، معاشی، نسلی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر پولرائزیشن (تقسیم) میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مودی دور کا نمایاں پہلو ریاستی اہم اداروں — بشمول پلاننگ کمیشن، الیکشن کمیشن، اعلیٰ عدلیہ اور مسلح افواج — کی "زعفرانی رنگ میں رنگائی رہا ہے منگل کو اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز (ISSI) کے زیر اہتمام منعقدہ گول میز مباحثے "مودی 3.0 کا ایک سال – بھارت کی خارجہ پالیسی کی امنگیں اور داخلی طرزِ حکمرانی" میں شریک مقررین نے یاد دلایا کہ وقف بل، ہجرت سے متعلق قوانین، اور بہار جیسے ریاستوں میں ووٹر لسٹوں کی نظرثانی جیسے اقدامات مسلمانوں کے لیے مزید محدود ہوتے ہوئے سیاسی و سماجی ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔مودی دور کا نمایاں پہلو ریاستی اہم اداروں — بشمول پلاننگ کمیشن، الیکشن کمیشن، اعلیٰ عدلیہ اور مسلح افواج — کی "زعفرانی رنگ میں رنگائی ر ہا ہے۔ سابق سیکریٹری خارجہ اور ڈی جی آئی ایس ایس آئی سفیر سہیل محمود، ڈاکٹر راشد ولی جنجوعہ، پاکستان کی سابق سفیر برائے ایران رفعت مسعود، سابق وزیر خارجہ سفیر انعام الحق اور سفیر خالد محمود نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔مقررین نے واضح کیا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان کئی امور پر اختلافات نمایاں ہیں، جن میں بی جے پی کے صدر کی تقرری، مودی کی عمر 75 سال کے قریب پہنچنا، اور بی جے پی کے بعض حلقوں کی ناگپور سے آزاد پالیسی اپنانے کی خواہش شامل ہے۔ مئی 2025 کی پاک-بھارت کشیدگی کے بعد مودی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے، لیکن غالب امکان ہے کہ وہ بڑھتے ہوئے چیلنجز کو کسی نہ کسی طرح سنبھال لے گا۔