• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ ججز کمیٹی اجلاس منٹس، چیف جسٹس کا جوابی خط منظر عام پر آ گیا

اسلام آباد (عاصم جاوید) ججز کمیٹیوں کے اجلاسوں کے منٹس منظر عام پر آ گئے جبکہ چیف جسٹس کے جسٹس منصور علی شاہ کو لکھے جوابی خط کی تفصیلات بھی سامنے آ گئیں۔13 میں سے 9 ججز نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کےخلاف درخواستیں فل کورٹ نہیں آئینی بنچ میں سنی جائیں، متن کے مطابق دو ججز کو 13ججز کے نکتہ نظر سے بھی آگاہ کر دیا  ، بطور چیف جسٹس  فل کورٹ اجلاس بلانے کو مناسب نہیں سمجھا، سپریم کورٹ میں 31اکتوبر 2024ء سے 29مئی 2025ء تک ججز کمیٹیوں کے اجلاسوں کے منٹس پبلک کر دئیے گئے جن میں 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ میں ہونے والے مختلف اقدامات سے متعلق تمام حقائق پہلی مرتبہ منظر عام پر آ گئے۔چیف جسٹس کے خط میں کہا گیا کہ میں نے ذاتی طور پر سپریم کورٹ کے 13ججز سے رائے لی، دو ججز نے کہا کہ آرٹیکل 184شق 3 کے تحت دائر 26 ویں آئینی ترمیم کیس فل کورٹ میں سنا جائے، ججز سے پوچھا کہ کیا ایسا چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد ہو سکتا ہے؟ 13 میں سے 9 ججز نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کےخلاف درخواستیں فل کورٹ نہیں آئینی بنچ میں سنی جائیں۔ خط میں مزید کہا گیا کہ جب ججز کی رائے آ چکی تو یہ حقائق دونوں ججز کو بتا دئیے، دونوں ججز کو 13ججز کے نکتہ نظر سے بھی آگاہ کر دیا گیا، بطور چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ اجلاس بلانے کو مناسب نہیں سمجھا، ایسا کرنے سے ججز کے درمیان انتہائی ضروری باہمی روابط کی روح مجروح ہوتی، اس سے سپریم کورٹ عوامی تنقید کا نشانہ بھی بن سکتی ہے۔26 ویں آئینی ترمیم پر آئینی درخواستوں کی آئینی بینچ میں سماعت کی رائے 9 ججوں نے کب اور کیوں دی؟ چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے آئینی بینچ کا حصہ بننے سے کیوں معذرت کی؟ جسٹس منصور اور جسٹس منیب کے 26 ویں آئینی ترمیم کیس فل کورٹ میں لگانے کے فیصلے کے بعد کیا ہوا؟ اور چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے فل کورٹ اجلاس کیوں نہیں بلایا؟
اہم خبریں سے مزید