کراچی (تحقیقاتی رپورٹ: اسد ابن حسن) کال سینٹر کے ذریعے اربوں روپے کمانے والا اور ساتھ ہی ایک قتل کے مقدمے کا ملزم ارمغان گزشتہ کئی ماہ سے جیل میں ہے اور حیرت انگیز طور پر اس نے اب تک اپنے کسی بھی مقدمے میں ضمانت بعد گرفتاری کی کوئی درخواست جمع نہیں کرائی ہے ۔ ایف آئی اے کے اینٹی منی لانڈرنگ سرکل اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کے دونوں مقدمات میں تفتیشی افسران نے ضمنی چالان تو جمع کروا دیئے مگر عرصہ گزرنے کے باوجود حتمی چالان جمع نہیں کرائے ہیں۔ دونوں چالانوں میں ملزم کے پاس 51بٹ کوائن کی ملکیت دکھائی گئی ہے۔ سائبر کرائم کے چالان میں یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ اس کے 18 بٹ کوائن ماضی میں کیش کیے گئے۔ ذرائع کے مطابق کچھ بٹ کوائنز تو پولیس کی حراست میں اور ایف آئی اے اور نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کی حراست میں بھی کیش کیے گئے۔ واضح رہے کہ جب ملزم نے بٹ کوائن خریدنے شروع کیے تو اس وقت ایک بٹ کوائن کی قیمت تقریبا ایک لاکھ ڈالر تھی اور آج یہ قیمت تقریبا ڈیڑھ لاکھ ڈالر ہے جو پاکستانی روپوں میں دو ارب سے زیادہ کی رقم بنتی ہے۔ سائبر کرائم کے تحقیقاتی افسر نے اپنے ضمنی چالان میں تحریر کیا ہے کہ اس نے بٹ کوائن کے حوالے سے "کوائن بیس" کمپنی جس سے اس نے بٹ کوائن خریدے تھے معلومات حاصل کرنے کے لیے تحریر بھیجی تھی جس کا جواب یہ آیا کہ "کیونکہ اکاؤنٹ ہو لڈر پاکستان بیسڈ نہیں ہے لہذا مزید معلومات کے لئے براہ راست ان اتھاریٹیز سے را بطہ کیا جائے جہاں وہ مقیم ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی اور نہ ہی اینٹی منی لانڈرنگ سرکل ملزم ارمغان کے بٹ کوائن کی ملکیت ثابت کر سکتے ہیں کیونکہ دونوں ایجنسیز کے پاس وہ جدید "چین اینالسز" سافٹ ویئر موجود ہی نہیں ہے جس سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ یہ بٹ کوائن ملزم نے خریدے اور اس کے پاس اب بھی موجود ہیں۔ یہاں یہ بات بھی اہم اور عجیب اتفاق ہے کہ ارمغان کے خلاف این سی سی آئی اے میں اور اے ایم ایل میں جب مقدمات درج ہوئے تو اس وقت کے سربراہان ہی عہدوں سے ہٹا دیے گئے ہیں جبکہ اے ایم ایل کے تفتیشی افسرکو نوکری سے ہی برخاست کر دیا گیا ہے۔ این سی سی اے کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے ممبران اب بھی سرکل میں موجود ہیں۔