• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک سعودی معاہدہ، بھارت کو تشویش، عرب ممالک کا تحفظ، خطے میں نیا توازن

 کراچی (رفیق مانگٹ)سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان "اسٹرٹیجک دفاعی معاہدے" نے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں نئے اتحادوں کی بنیاد رکھی ہے، جو بھارت کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں سے عرب ممالک میں سلامتی کے خدشات بڑھ گئےہیںجبکہ مصری صدر السیسی نے اسرائیل کو دشمن قرار دے دیا،بھارت کیساتھ تیل کی تجارت متاثر نہیں ہوگی،برطانوی میڈیا کے مطابق بھارتی ماہرین نے معاہدے کو سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا، اسرائیلی اخبار کا کہنا ہے کہ معاہدہ ابراہیمی کے 5برس بعد بھی خطہ غیر مستحکم ہے،خلیجی اخبار کے مطابق معاہدے سے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی سیاست بدل سکتی ہے۔تفصیلات کے مطابق برہما چیلانی اور کنول سبل جیسے بھارتی ماہرین، پاک سعودی دفاعی معاہدے کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں، لیکن سعودی عرب کے بھارت کے ساتھ تیل کے مضبوط تعلقات برقرار رہیں گے۔ اسرائیل کے غزہ اور قطر میں حماس کے عہدیداروں پر حملوں نے مصر، اردن اور قطر جیسے عرب ممالک میں سلامتی کے خدشات بڑھا دیے ہیں۔ مصر کے صدر السیسی نے اسرائیل کو دشمن قرار دیا، جبکہ اردن کو فلسطینیوں کی نقل مکانی کا ڈر ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ "اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ" کیا، جو امریکی کردار پر مایوسی اور خطے میں نئے اتحادوں کی عکاسی کرتا ہے۔امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز لکھتا ہےاسرائیل سے تعلقات رکھنے والے عرب ممالک قطر میں حماس کے عہدیداروں پر حملے اور غزہ شہر پر چڑھائی کو اپنی سلامتی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ دو سال سے، مصر، اردن اور دیگر عرب ممالک غزہ کی جنگ کو سیاسی بحران کے طور پر سنبھالتے ہوئے اسرائیل سے رابطے برقرار رکھے ہوئے ہیں، لیکن حالیہ حملوں نے ان کے تحفظات کو بڑھا دیا ہے۔ قطر، جو غزہ میں جنگ بندی کے لیے ثالثی کر رہا ہے اور امریکا کا مضبوط اتحادی ہے، دوحہ میں 9 ستمبر کے حملے سے ہل گیا۔ تجزیہ کار ایچ اے ہیلر کے مطابق، مصر، اردن اور ترکیہ کو خدشہ ہے کہ وہ بھی اسرائیلی حملوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے اسرائیل کو "دشمن" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملے قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ اردن کو ڈر ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو مغربی کنارے سے اس کی سرحد پر دھکیل سکتا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ "اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ" کیا، جو خلیج کی حفاظت کے لیے امریکی کردار پر مایوسی کی عکاسی کرتا ہے۔ ماہر اینڈریاس کریگ نے خبردار کیا کہ خطہ 1948-1973 کی عرب-اسرائیلی جنگوں جیسے وسیع تنازع کی طرف بڑھ سکتا ہے، کیونکہ اسرائیل کی کارروائیاں اب صرف فلسطینیوں تک محدود نہیں رہیں۔امریکی ٹی وی سی این بی سی کی مطابق سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ہونے والا نیا دفاعی معاہدہ بھارت کے ساتھ سعودی عرب کے تیل کے تجارتی تعلقات کو متاثر نہیں کرے گا۔ سی این بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک سینئر ذرائع نے کہا کہ بھارت، جو سعودی تیل کا اہم خریدار ہے، اپنی خریداری جاری رکھے گا۔ ذرائع نے واضح کیا کہ سعودی عرب اپنی سیکورٹی کو مضبوط کرنے کے لیے اتحاد بڑھا رہا ہے، لیکن اس سے اس کے تجارتی مفادات متاثر نہیں ہوں گے۔انڈین اکنامک ٹریڈ ایسوسی ایشن کے صدر آصف اقبال نے کہا کہ سعودی عرب ہمیشہ سے بھارت کا مضبوط شراکت دار رہا ہے۔ انہوں نے معاہدے کو ہر ملک کے قومی مفادات کے تناظر میں دیکھنے کی بات کی۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے تیل کی قیمتوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ بھارت نے کہا کہ وہ اس معاہدے کے سیکیورٹی اثرات کا جائزہ لے گا، لیکن توانائی کے تعلقات بدستور مضبوط رہیں گے۔بی بی سی لکھتا ہےسعودی عرب اور پاکستان کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدے نے بھارت میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، خاص طور پر پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے تناظر میں۔ یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب رواں سال بھارت اور پاکستان کے درمیان چار روزہ تنازع سمیت کشمیر پر کئی جھڑپوں کی تاریخ موجود ہے۔بھارتی ماہرین نے اس معاہدے کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ حکمت عملی کے ماہر برہما چیلانی نے ایکس پر لکھا کہ سعودی عرب نے جانتے بوجھتے یہ قدم اٹھایا، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ بھارت اسے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے گا۔ ان کے مطابق، یہ معاہدہ پاکستان کی معاشی کمزوری سے زیادہ سعودی عرب کے تزویراتی عزائم کی عکاسی کرتا ہے، جو پاکستان کو اپنا "انحصار کرنے والا شراکت دار" بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اہم خبریں سے مزید