پشاور (امجد صافی) پشاور ہائیکورٹ نے خیبرپختونخوا کےبلدیاتی نمائندوں کے انتظامی، مالی اور دیگر اختیارات میں کمی کے خلاف دائر رٹ درخواستیں منظور کرتے ہوئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013میں مختلف ادوار میں ہونے والی حکومتی ترامیم اور اقدامات کو کالعدم قراردیدیا جبکہ مذکورہ ایکٹ کو اصل حالت میں بحال کرنے کاحکم بھی جاری کردیا ہے۔ جسٹس سید ارشدعلی اور جسٹس فرح جمشید پر مشتمل دورکنی بنچ نے مردان کے مختلف بلدیاتی نمائندوں کی رٹ درخواستوں پر سماعت کی جبکہ اٹھارہ صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس فرح جمشید نے تحریر کیا ہے۔ بابرخان یوسفزئی ایڈوکیٹ ودیگر کی وساطت سے دائر درخواستوں میں خیبرپختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013اور2015ایکٹ، ترمیمی ایکٹ 2019اور ترمیمی ایکٹ 2022کے مختلف پرویژنز کو چیلنج کیا گیا تھا۔ درخواستوں یں یہ وقف اختیار کیا گیا تھا کہ درخواست گزارضلع مردان کے مختلف تحصیل کونسل اور سٹی کونسلز کے چیئرمین اور میئرز منختب ہوئے ہیں جنہیں بلدیاتی امور چلانے کیلئے مختلف اختیارات تفویض کیے گئے تاہم مختلف ادوار میں لوکل گورنمنٹ میں ترمیم کرکے ان کے مالی و انتظامی اختیارات کو کم کردیا گیا ہے اور حکومت نے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو اپنے اختیار میں کردیا ہے۔ سیکشن 2(r)میں ترمیم کرکے میونسپل سروسز جیسے اراضی استعمال کا کنٹرول، زوننگ، ماسٹر پلاننگ اینڈ ہاوسنگ وغیرہ سے متعلق اختیارات بھی حکومت نے لے لیے ہیں جو پہلے لوکل کونسلز کے پاس تھے۔ انہوں نے بتایاکہ حکومتی اقدامات سے بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات اور اتھارٹی کو تقریبا ختم کردیا گیا ہے یہ ترامیم نہ صرف اصل ایکٹ کے روح کے خلاف ہے بلکہ آئین کے آرٹیکل 32اور 140Aکے خلاف بھی ہے جس سے درخواست گزاروں کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے کیونکہ ترامیم کے زریعے مقامی حکومتوں کی سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات تقریبا چھین لی گئی ہیں۔