اسلام آباد( رپورٹ:،رانامسعود حسین) سپریم کورٹ نے قراردیاہے کہ اعلیٰ عدلیہ (سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ) کے کسی بھی جج کے خلاف سنگین مس کنڈکٹ کے الزام تحت کارروائی کا فورم صرف اور صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہے، آئین کاآرٹیکل 209 سپریم جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی بھی دوسرے فورم پر جج کیخلاف کارروائی پر قدغن لگاتا ہے، آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت جج ایک دوسرے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرسکتے،عدالت نے قراردیاہے کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر)کمیٹی اور آئینی بینچوں کی تشکیل کی کمیٹی کے ممبران ( چیف جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر) کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی غیر پائیدار ہے اس لئے توہین عدالت کا نوٹس برقرار ہی نہیں رہ سکتا ،اس لئے اس حکمنامہ کو کالعدم قراردیا جاتا ہے ،جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل دو رکنی ریگولر بینچ کے 21 اور 27 جنوری کے احکامات موثر نہیں ، اس لئے کمیٹی ممبران کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کالعدم قرار دی جاتی ہے، یاد رہے کہ مذکورہ بینچ نے عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر نہ کرنے پر ایڈیشنل رجسٹرارنذر عباس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تھی ، جس کے خلاف انہوں نے انٹراکورٹ اپیل دائر کی تھی،تاہم دوسری سماعت کے تحریری حکمنامہ میں دو رکنی بنچ نے ان کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لیتے ہوئے مقدمہ سماعت کے لئے مقرر نہ کرنے پر سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر)کمیٹی اور آئینی بینچوں کی تشکیل کی کمیٹی کے ممبران ( چیف جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر) کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چلانے کے لئے سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دینے اوراس حوالہ سے انتظامی حکمنامہ کے اجراء کے لئے معاملہ چیف جسٹس یحی آفریدی کوہی بھجوا دیا تھا۔