کراچی(رفیق مانگٹ)برطانوی اخبار کے مطابق مغربی معاشروں میں والدین کی تنہائی سنگین مسئلہ ہے،مشرقی ثقافتوں میں خاندانی تعاون نمایاں،اسپتالوں میں تنہائی بزرگ مریضوں کی صحت کیلئے خطرہ ہے، 85سال سے زائد35فیصد افراد تنہا زندگی گزار رہے ہیں، خاندانی تعاون مریضوں کی صحت یابی تیز کرتا ہے، تنہائی بیماری بڑھا دیتی ہے،ادویات نہیں، محبت اور توجہ اصل علاج ہے جو کوئی اسپتال فراہم نہیں کرسکتا۔برطانوی اخبار کے مطابق اسپتالوں میں داخل بزرگ مریضوں میں بڑھتی ہوئی تنہائی ان کی صحت کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے اور صحت یابی کے عمل کو سست کر رہی ہے۔ آسٹریلوی آنکولوجسٹ اور مصنفہ ڈاکٹر رنجنا سریواستووا کے مشاہدات میں بتایا گیا ہے کہ عمر رسیدہ مریضوں کے طبی مسائل کے ساتھ ساتھ سماجی حالات بھی ان کی دیکھ بھال میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 85 سال سے زائد عمر کے تقریباً 35 فیصد افراد اکیلے رہتے ہیں۔ ایسے مریض اکثر اسپتال میں اداس، بے یار و مددگار اور ذہنی دباؤ کا شکار پائے جاتے ہیں، جبکہ بعض کو اپنی دوائیوں یا طبی تاریخ کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ عملہ بنیادی علاج تو فراہم کرتا ہے لیکن تنہائی کے احساس کو ختم نہیں کر سکتا۔ ایک مثبت مثال جہاں ایک 90 سالہ مریض اپنے بیٹوں کے ساتھ خوش و خرم نظر آئے۔ ان کے بیٹوں نے نہ صرف والد کی دیکھ بھال میں بھرپور حصہ لیا بلکہ اسپتال کے عملے کو مکمل طبی معلومات فراہم کیں اور گھر کا کھانا بھی لائے۔ یہ خاندانی تعاون مریض کی صحت اور نفسیاتی سکون کے لئے فائدہ مند ثابت ہوا۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ مغربی معاشروں میں بڑھاپے میں تنہائی ایک عام مسئلہ ہے، جہاں کئی بچے والدین کے قریب نہیں رہ پاتے۔ اس کے برعکس، ایشیائی اور مشرقی ثقافتوں میں خاندانی تعاون نمایاں ہوتا ہے۔ ان کے مطابق تنہائی ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج دوائیوں سے ممکن نہیں، بلکہ یہ صرف محبت، وقت اور توجہ سے کم کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ جدید زندگی کی مصروفیات کے باوجود والدین کی دیکھ بھال کو ترجیح دینا چاہیے کیونکہ بہتر سماجی پالیسیاں بھی انفرادی ذمہ داری کی جگہ نہیں لے سکتیں۔