کراچی (رفیق مانگٹ)پاک سعودیہ معاہدہ دنیا کے امریکی اثر و رسوخ سے آزاد ہونے کا پہلا ٹھوس اشارہ،دہائیوں تک خلیجی ممالک کا سلامتی کیلئے امریکا پر انحصار ، واشنگٹن کی غیر دلچسپی سے تاثر کمزور ، قطر کی مثال نمایاں ہے،تبدیلیاں ’پوسٹ امریکن ورلڈ‘ کی جھلک، واشنگٹن کمزور پالیسیوں کے نتائج بھگت رہا ہے ۔ امریکی ٹی وی بلوم برگ کے مطابق امریکہ کے عالمی منظرنامے سے پیچھے ہٹنے کے نتیجے میں سعودی عرب اور پاکستان جیسے ممالک نئے حفاظتی معاہدوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ معاہدے عالمی سیاست میں ایک نئے دور کی نشاندہی کرتے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان باہمی دفاعی معاہدے کو محض رسمی دستاویز سمجھنا آسان ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ یہ معاہدہ ایک ایسی دنیا کا پہلا ٹھوس اشارہ ہے جو امریکی اثر و رسوخ سے آزاد ہوتی جا رہی ہے۔ دہائیوں تک خلیجی ممالک اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر انحصار کرتے رہے، لیکن واشنگٹن کی غیر دلچسپی نے اس تاثر کو کمزور کر دیا ہے۔ قطر کی مثال نمایاں ہے۔ موجودہ امریکی صدر کو راغب کرنے کے لیے قطر نے انہیں 400 ملین ڈالر کا ایک طیارہ بطور ایئر فورس ون دیا۔ لیکن اس کے باوجود قطر، جہاں مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ موجود ہے ،اسرائیلی طیاروں کی بمباری کا نشانہ بنا۔ اسرائیلی حملوں کے وقت واشنگٹن صرف دس منٹ کی تاخیر سے وارننگ دینے پر اکتفا کرتا رہا۔ اس رویے نے خطے کے ممالک کو متبادل راستے تلاش کرنے پر مجبور کر دیا۔ اسی پس منظر میں سعودی عرب نے پاکستان کا رخ کیا ہے، جو خطے میں چند ہی ممالک کی طرح ایٹمی تحفظ فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم اس فیصلے نے بھارت کو پریشان کر دیا ہے، کیونکہ وہ حالیہ برسوں میں سعودی عرب اور اسرائیل دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات بنا کر پاکستان کو تنہا سمجھ رہا تھا۔ نئی دہلی کے لیے یہ پیش رفت اس کی اپنی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، کیونکہ ایک ہی وقت میں ایران، اسرائیل اور سعودی عرب سے تعلقات بڑھانے کی کوشش نے اس کی حیثیت سب کے لیے غیر معتبر بنا دی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کی قربت کوئی نئی بات نہیں، لیکن 2015 میں یمن جنگ کے معاملے پر اختلاف نے تعلقات کو سرد مہری میں بدل دیا تھا۔ بعد ازاں چین کی سرمایہ کاری نے پاکستان کے لیے نئے مواقع کھولے جبکہ سعودی امداد کی نوعیت قرضوں تک محدود ہو گئی۔ دوسری جانب سعودی عرب نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا، لیکن موجودہ صورتِ حال میں ریاض نے اسلام آباد کو دوبارہ اہمیت دینا شروع کر دی ہے۔ اس پیش رفت سے اسرائیل کے ساتھ سعودی تعلقات کی بحالی مزید تاخیر کا شکار ہو گئی ہے جبکہ ایران خود کو دبا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں ایک "پوسٹ امریکن دنیا" کی جھلک ہیں، جہاں امریکہ کے بغیر ممالک اپنی عارضی سیکیورٹی شراکت داریاں تشکیل دے رہے ہیں۔ یہ انتظامات ناپسندیدہ یا غیر مستحکم بھی ہو سکتے ہیں، لیکن سب سے زیادہ نقصان خود واشنگٹن کو ہوگا، جو اپنی کمزور پالیسیوں کے نتائج بھگت رہا ہے۔