• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرمپ منصوبہ، حماس مشروط آمادہ، غزہ کا کنٹرول آزاد فلسطینی ٹیکنو کریٹس کو سونپنے، قیدیوں کی رہائی اور مذاکرات کیلئے تیار

کراچی (نیوز ڈیسک) حماس نے ٹرمپ کے 21نکاتی امن منصوبے پر مشروط طور پر آمادگی کا اظہار کردیا ہے ، حماس نے کہا ہے کہ وہ غزہ کا کنٹرول آزاد فلسطینی ٹیکنوکریٹس کو سونپنے ، قیدیوں کی رہائی اور مذاکرات کیلئے تیار ہے ، قیام امن کیلئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ، عالمی برادری ، عرب اور مسلم ممالک کی کوششوں کو سراہتے ہیں،امن منصوبے پر غور وخوص کے بعد قیادت ،فلسطینی دھڑوں، اپنے دوستوں اور ثالث ممالک کیساتھ مشاورت کے بعد اپنا جواب ثالثوں کے حوالے کردیا ہے ،قطری حکام کو حماس کا جواب موصول ہوگیا ہے ، حماس نے اپنے جواب میں جنگ کے خاتمے، قیدیوں کے تبادلے ، انسانی امداد کی فوری رسائی کو یقینی بنانےکا مطالبہ کیا تاہم غزہ پر قبضےاورفلسطینیوں کو بے گھر کرنےکے منصوبے کو مسترد کردیا ہے، حماس نے یہ بھی کہا کہ قیدیوں کی رہائی کیلئے زمینی حالات کو محفوظ بنایا جائے ، اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا چاہتے ہیں، حماس نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ جہاں تک صدر ٹرمپ کی تجویز میں غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے ناقابلِ انتقال حقوق سے متعلق دیگر معاملات کا تعلق ہے، یہ ایک متحد قومی فلسطینی مؤقف سے جڑے ہوئے ہیں، جو متعلقہ بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں پر مبنی ہیں اور ان پر ایک جامع قومی فریم ورک کے اندر بات چیت کی جائے گی جس میں حماس فعال اور ذمہ دارانہ طریقے سے حصہ لے گی۔قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےحماس کو دھمکی دیتے ہوئے غزہ معاہدہ قبول کرنے کے لیے اتوار کی شام 6 بجے تک کا الٹی میٹم دیا اورکہاہے کہ وہ کل تک اس معاہدےپر دستخط کردے ورنہ ایسا قیامت خیز طوفان ٹوٹ پڑے گا جو اس سے قبل کسی نے نہیں دیکھا ہو گا، ٹرمپ نے اسے حماس کیلئےآخری موقع قرار دیا ، امریکی صدر نے ساتھ ہی معصوم فلسطینیوں کو غزہ کے محفوظ علاقوں میں منتقل ہو جانے کا کہا تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ (محفوظ علاقے) کہاں ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کے جواب کے بعد کہا کہ ان کا خیال ہے کہ حماس امن کے لیے تیار ہے، انہوں نے اسرائیل کو غزہ پر بمباری روکنے کا حکم دیا۔فرانسیسی خبررساں ادارے کےمطابق ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کیا: "حماس کی جانب سے جاری کردہ بیان کی بنیاد پر، میرا خیال ہے کہ وہ ایک دیرپا امن کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیل کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر غزہ پر بمباری روک دے، تاکہ ہم قیدیوںکو بحفاظت اور تیزی سے باہر نکال سکیں!"۔برطانوی خبررساں ایجنسی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پرلکھا کہ اتوار کی شام واشنگٹن کے مقامی وقت کے مطابق 6 بجے تک حماس کے ساتھ ایک معاہدہ طے پانا ضروری ہے۔انہوں نے لکھا کہ ہر ملک اس پر دستخط کر چکا ہے۔ٹرمپ نے دھمکی دیتے ہوئےکہا کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو غزہ میں جو باقی ماندہ حماس کارکن پھنسے ہوئے ہیں انہیں نشانہ بنایا جائےگا۔دریں اثناء حماس نے ثالث ممالک کو جمع کروائے گئے اپنے جواب میں کہا کہ غزہ کی پٹی میں ہمارے ثابت قدم عوام کے خلاف جاری جارحیت اور نسل کشی کی جنگ کے تناظر میں اور اپنی قومی ذمہ داری کے تحت اپنے عوام کے اصولوں، حقوق اور اعلیٰ مفادات کے تحفظ کے لیے، اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے اپنی قیادت کے اداروں، فلسطینی دھڑوں و قوتوں، ثالثوں اور دوست ممالک کے ساتھ وسیع مشاورت کی ہے تاکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے بارے میں ایک ذمہ دارانہ موقف اختیار کیا جا سکے۔ٹرمپ کے منصوبے کے تفصیلی جائزے کے بعد، حماس نے اپنا فیصلہ کیا اور ثالثوں کے ذریعے یہ جواب پہنچایا۔حماس نے ان عرب، اسلامی اور بین الاقوامی کوششوں کو سراہا ہے، بشمول امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کاوشوں کے، جن کا مقصد غزہ پر جنگ کے خاتمے، قیدیوں کے تبادلے، فوری انسانی امداد کی فراہمی، غزہ کی پٹی پر قبضے کو مسترد کرنے اور ہمارے عوام کی جبری بے دخلی کو روکنے کے لیے کیا گیا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ اسی تناظر میں اور مکمل جنگ بندی اور غزہ کی پٹی سے مکمل انخلا کے حصول کی راہ میں، حماس اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کی تجویز میں بیان کردہ تبادلے کے فریم ورک کے تحت تمام اسرائیلی قیدیوں’ خواہ زندہ ہوں یا باقیات کی صورت میں‘ کو رہا کرنے پر آمادہ ہے، بشرطیکہ تبادلے کے لیے ضروری زمینی حالات کو یقینی بنایا جائے۔ حماس ثالثوں کے ذریعے اس عمل کی تفصیلات پر بات کرنے کے لیے فوری مذاکرات شروع کرنے کی تیاری کا اعلان کرتی ہے۔تحریک اس امر کی بھی تجدید کرتی ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کی انتظامیہ کو ایک ایسی فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے پر راضی ہے جو آزاد (ٹیکنوکریٹ) شخصیات پر مشتمل ہو، قومی اتفاقِ رائے سے تشکیل پائے اور اسے عرب و اسلامی حمایت سے تقویت حاصل ہو۔جہاں تک صدر ٹرمپ کی تجویز میں شامل دیگر معاملات کا تعلق ہے جو غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے ناقابلِ تنسیخ حقوق سے متعلق ہیں، وہ ایک متحدہ قومی فلسطینی موقف سے جُڑے ہوئے ہیں، جو متعلقہ بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں پر مبنی ہوگا، اور ان پر ایک جامع قومی ڈھانچے میں بحث کی جائے گی، جس میں حماس فعال اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرے گی۔برطانوی ادارے کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کے حوالے سے اسرائیلی مطالبے پر حماس کا ردعمل کیا ہے۔حماس کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ اسلامی مزاحمتی تنظیم اسرائیلی قبضے کے خاتمے تک غیر مسلح نہیں ہوگی۔ دوسری جانب یہ بھی واضح نہیں ہے کہ حماس جہاں مذاکرات کیلئے رضامندی کا اظہار کررہی ہے وہیں امریکی صدر ٹرمپ کے منصوبے میں بظاہر اس طرح کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔

اہم خبریں سے مزید