اسلام آباد ( رپورٹ:،رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ میں مختلف ہائی کورٹسں سے تین ججوں کے اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلوں و سنیارٹی کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اختلافی نوٹ جاری کر دیا ، جمعہ کے روز جاری 40 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جسٹس نعیم اختر افغان نے قلمبند کیا جبکہ جسٹس شکیل احمد نے اس سے اتفاق کیا ، اختلافی نوٹ میں قراردیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ہائی کورٹ کے ججوں کا کسی دوسری ہائی کورٹ صرف عارضی تبادلہ ہو سکتا ہے، مستقل نہیں جبکہ صدر مملکت نے بغیر شفاف معیار اور بامعنی مشاورت کے ہی ان تین ججوں کے تبادلہ کانوٹیفکیشن جاری کیا جو غیر آئینی اور غیر ضروری جلدبازی میں کیا گیا ، اختلافی نوٹ کے مطابق صدر کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن قانوناً بے اثر اور عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے،مشترکہ نوٹ میں فاضل ججوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام لکھے اس خط کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت، دبائو، بلیک میلنگ اور سیاسی نوعیت کے مقدمات میں فیصلوں کی انجینئر نگ کرانے کے الزامات لگائے گئے تھے اوراس کے ساتھ ساتھ جبری گمشدگیوں کا معاملہ بھی اٹھایا گیا تھا، اختلافی نوٹ میں قراردیا گیا ہے کہ اسی خط کے بعد ججوں کی اسلام آباد ہائیکورٹ منتقلی کا عمل شروع ہوا اور حکومت نے جلدبازی میں مستقل تبادلے کا فیصلہ کیا تاکہ عدالت کی آزادی پر اثر انداز ہوا جا سکے۔