• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فنِ پہلوانی کے فروغ کے اعتبار سے صوبۂ پنجاب کے مشہور شہر، سیال کوٹ کو ممتاز مقام حاصل ہے اور اس شہر سے تعلق رکھنے والے پہلوانوں نے مُلک و ملّت کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ کسی دَور میں ’’لال پنجے والا‘‘ سیال کوٹ کا مشہور اکھاڑا تھا۔ 

یہ تھانہ قلعہ کے سامنے وسیع میدان میں واقع تھا۔ چُوں کہ اس اکھاڑے کی نگرانی رُستمِ ہند، لال پنجے والا کرتے تھے، لہٰذا یہ اُن ہی کے نام سے موسوم ہوگیا۔ ’’لال پنجے والا‘‘ کشمیری گھرانے کے مایہ ناز سپوت اور اپنے وقت کے باکمال پہلوان تھے۔

ماضی میں اس اکھاڑے میں خاصے دنگل ہوا کرتے تھے۔ تاہم، اب اسے سیرگاہ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہاں دِل چسپ اور حیرت انگیز اَمر یہ ہے کہ شاعرِ مشرق، علامہ محمّد اقبالؒ بھی اس اکھاڑے میں زور کیا کرتے تھے۔ (بحوالہ تاریخِ سیال کوٹ صفحہ نمبر 449، ایڈیشن2009ء)۔ علاوہ ازیں، سیّد نذیر نیازی نے بھی علاّمہ اقبالؒ کی ابتدائی عُمر میں باقاعدہ ورزش کرنے کی تصدیق کی ہے۔

اُن کے مطابق، 1902ء میں وہ کوچہ ہنومان کے قریب ایک اکھاڑے میں جایا کرتے تھے اور لالہ کیدار ناتھ کے ساتھ لنگوٹ باندھ کر باقاعدہ زور کیا کرتے تھے تھے۔ سید نذیر نیازی نے کوچہ ہنومان کے اکھاڑے کے ضمن میں لکھا ہے کہ ’’علاّمہ اکھاڑے جاتے، تو ہر صُبح ایک ہندو راستے میں ملتا، جو نہایت خوش آواز میں بھجن گاتا گزرا کرتا تھا۔ 

علاّمہ نے ایک روز اُسے روک کر پوچھا کہ ’’یہ جو بھجن تم پڑھتے ہو، اس کےمعنی بھی جانتے ہو۔‘‘ تو اُس نے جواب دیا کہ ’’مَیں تو معنی سمجھے بغیر ہی پڑھتا رہتا ہوں۔ (بحوالہ ماہنامہ الضیاء، لاہور، اپریل 1958ء)

چراغ حسن حسرت کی کتاب، ’’حیاتِ اقبال‘‘ کے صفحہ نمبر پر 35 درج ہے کہ ’’وہ صُبح اُٹھ کر نماز پڑھتے۔ نماز کے بعد بلند آواز سے قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے اور پھر ڈنڈ پیلتے۔ وہ کبھی کبھی مگدر بھی ہلاتے تھے۔‘‘ علامہ اقبالؒ کے مُنشی، حکیم طاہر الدّین کے بڑے صاحب زادے، شیخ محمّد رفیق کےمطابق، ’’زندگی کے ابتدائی حصّے میں علاّمہ صاحب اکھاڑے میں ورزش کرنے بھی جایا کرتے تھےاور پہلوانی کے داؤ پیچ بھی سیکھتے تھے۔

ایک پہلوان، لال دین کافی عرصہ انارکلی والے گھر میں اُن کے پاس رہا۔ جب وہ بوڑھا ہوگیا، تو علاّمہ اقبالؒ نے اُس سے کہا کہ’’پہلوان! اب کہاں جاؤ گے۔ روٹی ہی کھانی ہےناں، میرے پاس آجاؤ…اور پھر وہ اُن کے پاس آگیا اور آخری دَم تک ان کے ہاں مقیم رہا۔ (حیاتِ اقبال، غیر مطبوعہ گوشے، غیر مطبوعہ باتیں)۔ 

اسی طرح ڈاکٹر جسٹس (ر) جاوید اقبال اپنی خُودنوشت، سوانح حیات، ’’اپنا گریباں چاک‘‘ کے صفحہ نمبر پر 36 پر اپنے والد کے کُشتی کے شوق کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ ’’والدکی خواہش تھی کہ مَیں تقریر کرنا سیکھوں۔ 

اس کے علاوہ یہ بھی چاہتے تھے کہ مَیں کُشتی لڑا کروں۔ چناں چہ اِس سلسلے میں میرے لیے گھر میں ایک اکھاڑا بھی بنوایا گیا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اکھاڑے کی مٹی میں ڈنڈ پیلنا اور لنگوٹ باندھ کر لیٹے رہنا صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔ چند مرتبہ مَیں ان کے ساتھ کُشتی کے مقابلے دیکھنے بھی گیا۔‘‘

علاّمہ اقبالؒ کےمُنشی،حکیم طاہرالدّین نے شاعرِ مشرق کو بچپن سے جوانی تک نہایت قریب سے دیکھا۔ علاّمہ انارکلی والے گھر میں مقیم تھے، تو حکیم طاہر الدّین بھی اسی مکان کے ایک حصّے میں رہتے تھے۔ دونوں کا آبائی شہر بھی سیال کوٹ ہی تھا۔ حکیم صاحب مرحوم، شیخ عبدالقادر کے عزیز تھے اور انہوں نے ہی انہیں علاّمہ اقبالؒ کے ہاں مُنشی رکھوایا تھا۔ وہ بڑے دِین دار اور پہلوانی کے شوقین تھے۔

پہلوانی بھی علاّمہؒ اور حکیم طاہر الدّین میں ایک قدرِ مشترک تھی۔ حکیم طاہر الدّین نے علاّمہؒ کی متعدد کُتب شایع کیں۔ اُن کے بڑے صاحب زادے، شیخ محمّد رفیق کے مطابق، ’’علاّمہ مرحومؒ صرف خُود ہی پہلوانی نہیں کرتے تھے، بلکہ مسلمان نوجوانوں کو ورزش کرنے اور مضبوط بننے کا مشورہ بھی دیا کرتے تھے۔

وہ کسی نوجوان شاعر کے شعر کی اصلاح نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی مسلمان نوجوان شعر لے کر اُن کے پاس آتا، تو اسے مشورہ دیتےکہ ’’قوم کو شعروں کی بجائے شیروں کی ضرورت ہے۔ جاؤ، جا کر ورزش کرو۔‘‘ وہ قوم کو مضبوط اور اُس کے نوجوانوں کو طاقت وَردیکھنا چاہتے تھے۔

علاّمہ اقبال کی پہلوانی سے رغبت کے باعث شہر کے جملہ پہلوان اُنہیں بڑی عزّت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کے پاس مشورے لینے بھی آتے تھے۔ علاّمہ اقبالؒ اور شہر کے پہلوانوں میں ایک قسم کا خفیہ معاہدہ تھا کہ وہ مسلمان نوجوانوں کی اس ضمن میں حوصلہ افزائی کریں گے۔ یہی وجہ ہےکہ جب منٹو پارک، لاہور میں گونگے پہلوان اور امام بخش پہلوان کے مابین پہلی کُشتی ہوئی، تو اس میں منصف اقبالؒ کو بنایا گیا اور اس مقابلے کو دیکھنے کے لیے ہندوستان کے تمام حصّوں سے پہلوان لاہور آئے۔‘‘ 

شیخ محمّد رفیق کے مطابق، جب امام بخش نے گونگے پہلوان کو پچھاڑدیا، تو اکھاڑے میں زبردست ہنگامہ ہوا۔ فریقین نے چاقوؤں اور چُھریوں سے شامیانے کاٹ دیے۔ مسٹر بی ٹی اُس وقت لاہورکےایس پی تھے۔ انہوں نےبڑی مشکل سے ہنگامے پر قابو پایا اور گونگے پہلوان کو اپنی ہار ماننے پر مجبور کیا۔‘‘ (حیاتِ اقبال، غیر مطبوعہ گوشے، غیرمطبوعہ باتیں، بحوالہ ماہنامہ الضیاء لاہور، اپریل 1958ء)

مندرجہ بالا حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ شاعرِ مشرق فنِ پہلوانی کے دل دادہ تھے اور اُن کا دیسی کُشتیوں میں شریک ہونا اِس بات کی علامت ہے کہ وہ فنِ پہلوانی کے اسرار و رموز اچھی طرح سمجھتے تھے۔

سنڈے میگزین سے مزید