کراچی/اسلام آباد (اسٹاف رپورٹر/جنگ نیوز / ایجنسیاں ) وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ این ایف سی میں جو درج ہےاس کو کم کئے بغیر بھی مختلف تجاویز ہیں جن پر جایاجاسکتاہے ‘ 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد بھی سروسز چیفس کی تعیناتی کا اختیار حکومت پاکستان کے پاس ہی رہے گا‘اگرصوبائی مختاری اور این ایف سی میں تبدیلی سے متعلق ترامیم پر پیپلز پارٹی کے خدشات برقرار رہے تو ستائیسویں ترمیم ان تجاویز کے بغیر ہی منظور کی جائے گی‘ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی نے 27 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے آرٹیکل 243کی حمایت جبکہ دہری شہریت کے خاتمے‘الیکشن کمشنراور ایگزیکٹو مجسٹریٹس کے حوالے سےتجاویز کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ترمیم سے صدر پاکستان کے اختیار پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘این ایف سی اور 18ویں ترمیم پر سمجھوتہ نہیں ہوگا ‘ ججز ٹرانسفر کے لئے جوڈیشل کونسل کے ساتھ متعلقہ چیف جسٹس صاحبان کی رائے بھی لی جائے‘وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم پر کافی حد تک اتفاق رائے ہوگیا ہے‘ابھی ترمیم نہیں لائی جا رہی۔سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی 243 پر مان گئی ہے، باقی چیزوں پر بھی تحفظات دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘جے یوآئی کے امیر فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اگر 27ویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 243 میں تبدیلی سے آئین اور جمہوریت پر منفی اثرات مرتب ہوئے تو وہ ہمیں قبول نہیں ہوگاتاہم اگر اس میں صرف انتظامی باتیں ہیں تواس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہرکے مطابق آرٹیکل 243سے متعلق مسودہ سامنے آئے گا تو ہی بات کریں گے۔امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہعدالتی نظام میں پیوند کاری کی نہیں تبدیلی کی ضرورت ہے‘کسی کو معلوم نہیں کہ اس ترمیم میں کیا ہے اور اصل ڈرافٹ کہاں سےآئے گا‘ تحریک انصاف کے مرکزی رہنمااسد قیصر نے کہا ہے کہ ہم اس ترمیم کے خلاف عوام میں بھی جائیں گے اور عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق جیوکے پروگرام ”نیا پاکستان“ میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کاکہناتھاکہ صوبوں کو چلانا فیڈریشن کی اور وفاق کو چلانا صوبوں کی ذمہ داری ہے‘ ان سب چیزوں کو باہمی افہام و تفہیم سے لے کر چلنا ہوگااور اس پر ایک مثبت بات چیت کا آغاز ہوچکا ہے اور این ایف سی میں جو درج ہےاس کو کم کئے بغیر بھی مختلف تجاویز ہیں جن کے اوپر پارلیمانی کمیٹی بنے گی جس میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی نمائندگی ہوگی‘ اس میں ان تجاویز پر بھی جایا جاسکتا ہے بہرحال اس کا کوئی ایسا حل جو سب کے لیے قابل قبول ہو اس کی تلاش کی جاسکتی ہے۔ وفاقی کابینہ اور سینیٹ کا اجلاس پیپلز پارٹی کے تحفظات کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا‘رانا ثناء اللہ نے کہا کہ آئینی کورٹ پر پیپلز پارٹی اور نون لیگ میثاق جمہوریت پر دستخط کرچکے ہیں اور انہوں نے کہا کہ صوبوں کی برابر کی نمائندگی ہونی چاہیے ہماری تجویز میں بھی برابر کی نمائندگی ہی ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں رہا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جس پر اتفاق رائے ہوگا اس پر ترمیم ہوجائے گی اور جس پر اتفاق نہیں ہوگا اس پر ڈبیٹ ہوتی رہے گی اور اسے آنے والے وقت میں دیکھیں گے۔ مسودہ سے متعلق رانا ثناء اللہ نے کہا کہ پچھلی دفعہ مسودوں کا بہت جھگڑا پڑ ا تھا اور ہر کسی کے پاس اپنا اپنا مسودہ تھا ۔رانا ثناء نے مزید کہا کہ ہائیکورٹ ججز کے ٹرانسفر سے متعلق بہت واویلا کیا جارہا تھا حالانکہ وہ اختیار حکومت کے پاس ہے اور گورنمنٹ اختیار جوڈیشل کمیشن کو دینے جارہی ہےاوراپنے اختیار سے دستبردار ہورہی ہے ‘الیکشن کمیشن سے متعلق اگر وزیراعظم اور لیڈر آف دی اپوزیشن آپس میں گفتگو ہی نہ کرسکیں نہ ہی بیٹھ سکیں تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ معاملہ وہیں رکا رہے‘ اس میں 45 دن کی قدغن لگائی جارہی ہے کہ اگر فیصلہ نہ ہو تو نام جوڈیشل کمیشن میں چلے جائیں‘یہ تاثر غلط ہے کہ جوڈیشل کمیشن میں حکومت کی اکثریت ہے۔ادھر بلاول ہائوس کراچی میں سی ای سی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو کاکہنا تھاکہ آرٹیکل 243پر حکومت کی حمایت کریں گے‘میثاق جمہوریت میں شامل دیگر نکات پر بھی بات ہونی چاہیے۔