اسلام آباد(رپورٹ:رانا مسعود حسین) عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے بھی مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے چیف جسٹس پاکستان، جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اکثر عوام کی بجائے طاقتوروں کیساتھ کھڑی رہی، عدلیہ میں بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں رہا یہ ایک کھلی حقیقت ہے جو جج بھی سچ بولتا ہے وہ انتقام کا نشانہ بنتا ہے جبکہ دوسری جانب سابق چیف جسٹس، جواد ایس خواجہ نے بھی مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے،درخواست میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے آئینی دائرہ اختیار کو کم نہیں کر سکتی، یہ اختیار کسی اور عدالت یا فورم کو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے خط میں موقف اختیار کیاہے کہ سپریم کورٹ اکثر عوام کی بجائے طاقتور وںکے ساتھ کھڑی رہی ہے، انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی پھانسی کو عدلیہ کا ناقابل معافی جرم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف کارروائیاں بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیںجبکہ پی ٹی آئی کے سابق سربراہ ،عمران خان کے ساتھ ہونے والا سلوک اسی جبر کا تسلسل ہے،فاضل جج نے مزید لکھا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو عوامی اعتماد حاصل کرنے کی پاداش میں نشانہ بنایا گیاہے ، جو جج بھی سچ بولتا ہے؟ وہ انتقام کا نشانہ بنتا ہے، اور جو نہیں جھکتا، اس کے خلاف احتساب کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے،انہوںنے لکھا ہے کہ عدلیہ میں بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں رہاہے بلکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے۔ دریں اثناء سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) وجیہ الدین نے 27 ویں ترمیم کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے گناہ کبھی پیچھا نہیں چھوڑتے، ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس نئی عدالت کے جج عدلیہ کے نہیں بلکہ وزیر اعظم کے نامزد کردہ ہوں گے۔