اسلام آباد (کامرس رپورٹر) وفاقی وزیرخزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہاہے کہ عالمی معاشی جھٹکوں سے نمٹنے کیلئے مضبوط مالی اور بیرونی حفاظتی ذخائر درکار ہیں، مضبوط اورمستحکم معیشت کیلئے نجی شعبہ کوسہولتوں کی فراہمی ضروری ہے، ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ میں کمی تجویز آئی تھی لیکن اس کو سرچارج کو وزیراعظم نے مکمل ختم کر دیا ، گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ملک کا موجودہ معاشی ماڈل پائیدار نہیں، ڈاکٹر معید اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا غیرملکی امداد پر انحصار نے معیشت کی ساخت تبدیل کرنے کی ترغیب ہی ختم کردی،ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا حکمراں اشرافیہ اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ ہے، سابق سیکرٹری خزانہ شاہد محمود نے کہا مجموعی سرکاری قرضہ 80ہزار 500ارب روپے یا جی ڈی پی کے لحاظ سے70 فیصد ہےاس کو کم کرنے کی ضرورت ہے، جاوید قریشی نے ملک کے معاشی ماڈل کو از سر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے،براہ راست ٹیکسز صوبوں کے پاس ہونے پرمفتاح اسماعیل اورقیصربنگالی میں بحث ہوئی مفتاح کا موقف تھا کہ یہ وفاق کے پاس ہونے چاہئیں جبکہ قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ یہ صوبوں کے پاس ہونے چاہئیں جب یہ ٹیکس وفاق کے پاس تھے تو اس وقت کون سی بہتری ہوگئی تھی۔ماہرین نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو یہاں پاکستان بزنس کونسل کے زیراہتمام دو روزہ ڈائیلاگ آن پاکستان اکانومی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پاکستان بزنس کونسل کانفرنس آج بھی جاری رہے گی ۔ وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہاہے کہ ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ میں کمی تجویز آئی تھی لیکن اس کو سرچارج کو وزیراعظم نے مکمل ختم کر دیا ، ٹیکس پالیسی آفس کوایف بی آر سے وزارت خزانہ منتقل کردیاگیاہے،ٹیکس پالیسی آفس کوفعال کردیاگیاہے اوراس میں انتظامیہ کو بھی تعینات کردیاگیاہے، ٹیکس پالیسی آفس کے ایڈوائزری کونسل کاافتتاحی اجلاس آج جمعرات کو ہوگا، کونسل میں نجی شعبہ کوشامل کیاگیاہے،ٹیکس پالیسی آفس کے ذریعہ بجٹ کیلئے تجاویزاورآرا کوبھی اکٹھا کیا جائیگا، پہلے صرف بجٹ سازی میں نجی شعبہ سے تجاویز حاصل کی جاتی تھی اب پالیسی سازی کے عمل میں بھی یہ سلسلہ سال بھرمیں جاری رکھاجائیگا۔گورنر اسٹیٹ بنک جمیل احمد نے کہا کہ ماضی میں حاصل ہونے والی گروتھ کی اوسط جو 3 سے 4 فیصد کے آس پاس رہی ہیں اب 25کروڑسے زائد آبادی والے ملک کو سہارا نہیں دے سکتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا موجود معاشی ماڈل پائیدار نہیں تھا، متعدد مرتبہ اس میں نشیب وفراز آئے۔ سابق گورنر اسٹیٹ بنک ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ پاکستان کی مجموعی معیشت کا حجم 700ارب ڈالر ہے اس میں رسمی ، غیر رسمی اور غیر دستاویزی سب شامل ہیں۔ سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمران اشرافیہ کا مقامی پالیسیوں پر توجہ نہیں ہے اور حکمران اشرافیہ اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ ہے،سابق سکیورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر معیدیوسف نے کہا کہ غیر ملکی قرضوں پر بڑھتے ہوئے انحصار سے معاشی اسٹرکچر میں تبدیلی پیدا نہیں ہوسکتی۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے وسائل میں اضافے کے باوجود انسانی ترقیای انڈیکس میں تعلیم اور صحت میں کمی ہوئی ہے، اسکے باوجود کہ گزشتہ 15برسوں میں صوبوں کے وسائل میں اضافہ ہوا اور انہوں نے این ایف سی کے فارمولے کو واپس کرنے کی تجویز دی ۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے این ایف سی فارمولے میں تبدیلی کی سختی سے مخالفت کی اور تجویز دی کہ ڈائر یکٹ ٹیکس وفاق کو دیئے جائیں جبکہ ان ڈائر یکٹ ٹیکس جمع کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ گورننس میں بہتری کے بغیر سماجی خدمات کی فراہمی میں بہتری نہیں آسکتی ۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ آبادی کے وزن میں کمی سے کیا صوبوں کے وسائل کی تقسیم کا طریقہ کار بنایاجاسکتا ہے۔سابق سیکرٹری خزانہ شاہد محمود نے کہا کہ مجموعی سرکاری قرضہ 80ہزار 500ارب روپے یا جی ڈی پی کے لحاظ سے70فیصد ہےاس کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ11واں این ایف سی اجلاس 4دسمبر کو ہوگا، توقع ہےکہ صوبوں کے ساتھ تعمیری بات چیت ہوگی اور قومی مالیاتی معاہدہ ہوگا، مضبوط اورمستحکم معیشت کیلئے نجی شعبہ کوسہولیات کی فراہمی ضروری ہے،حکومتی اقدامات کے نتیجہ میں معیشت مستحکم ہو گئی ہے اور اہم اقتصادی اشاریوں سے اسکی عکاسی بھی ہورہی ہے،ٹیکس کی بنیادمیں وسعت، لیکجز کاخاتمہ اورٹیکس نظام میں شفافیت ہمارامطمع نظر ہے، سرکاری ملکیتی اداروں میں گورننس کی بہتری اور نجکاری کاعمل مرحلہ واراندازمیں آگے بڑھایا جا رہاہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ توانائی کی مسابقتی ٹیرف اورمسابقتی ٹیکس شرح سے صنعتیں آگے بڑھ سکتی ہے،توانائی کے شعبہ میں اصلاحات کاعمل جاری ہے،کئی اقدامات کیے گئے ہیں اوریہ سلسلہ جاری رہے گا،اس میں نجی شعبہ سے تجاویز اورآراء کوبھی شامل کیا جارہاہے۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ سرکاری ملکیتی اداروں میں گورننس کی بہتری اورنجکاری کاعمل مرحلہ واراندازمیں آگے بڑھایا جارہاہے،اب تک 20وزارتوں اور301محکموں کاجائزہ لیاگیاہے، 9وزارتوں اور 78محکموں پرکام جاری ہے، 30 ستمبر تک 54ہزارخالی آسامیوں کوختم کردیاگیاہے،اس کاسالانہ امپکیٹ 56ارب روپے ہے۔