• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کے سول جج مستعفی، جوڈیشل معاملات پر تنقید

انصار عباسی

اسلام آباد:… پنجاب کے ایک سول جج سید جہانزیب بخاری نے 16؍ برس کی ملازمت کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہوں نے 15؍ صفحات پر مشتمل ایک چارج شیٹ جاری کی ہے جس میں سابق چیف جسٹس صاحبان اور اعلیٰ عدلیہ پر کرپشن، سیاسی مداخلت، ادارہ جاتی تکبر اور ماتحت عدلیہ کی تذلیل کے کھلے الزامات لگائے گئے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم کو لکھے گئے خط میں جج سید جہانزیب بخاری کا کہنا تھا کہ وہ 26ویں اور 27ویں آئینی ترامیم کی حمایت میں استعفیٰ دے رہے ہیں اور یہ کہ ’’استعفوں کے رجحان نے بھی مجھے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا ہے۔‘‘ انہوں نے متعدد سابق چیف جسٹس صاحبان اور اعلیٰ عدلیہ کے ارکان پر فوجی بغاوتوں کا جواز دینے، ذاتی پسند ناپسند، عدالتی کرپشن اور سیاسی مداخلت کے الزامات عائد کیے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’اعلیٰ عدلیہ نے ہمیشہ ڈھٹائی کے ساتھ مارشل لاز کو قانونی جواز فراہم کیا، نظریہ ضرورت متعارف کرایا، پاکستان کے معزز وزیر اعظم کا عدالتی قتل کیا۔ انہوں نے آزاد عدلیہ کے کچھ خود ساختہ چیمپئنز اور آئین کے محافظوں کے حالیہ اقدامات کا حوالہ دیا جن کے بارے میں جج سید جہانزیب بخاری کا کہنا تھا کہ ان پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ خود کو آمریت مخالف قرار دیتے ہوئے انہوں نے استعفے میں لکھا ہے کہ میں کبھی بھی آمریت، مارشل لا یا ایسے کسی نظام کی حمایت نہیں کروں گا جس میں عوام کی مرضی کے خلاف غیر منتخب افراد کو حکومت میں لایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کا بدترین روپ آمریت کے کسی بھی خوشنما چہرے سے بہتر ہے۔ مستعفی جج نے اعلیٰ عدلیہ پر آمروں کو جواز دینے اور آئینی ذمہ داری سے منہ موڑنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے ہمیشہ ڈھٹائی سے فوجی بغاوتوں کو قانونی جواز فراہم کیا، نظریہ ضرورت متعارف کرایا، معزز وزیر اعظم پاکستان کا عدالتی قتل کیا، اور دہائیوں سے ایک ایسی عدالتی اشرافیہ پیدا کی ہے جو خود کو بچاتی ہے، قانونی اصولوں کو موڑتی ہے، سیاسی انجینئرنگ کی راہ ہموار کرتی ہے اور اپنے اختیار کو آئینی حدود سے باہر لیجاتی ہے۔ اپنے استعفے میں انہوں نے تین سابق چیف جسٹس صاحبان کے نام لیے۔ انہوں نے بعد از 2007ء عدلیہ کے دور کو ملکی تاریخ میں عدالتی طاقت کا شخصی مظاہرہ قرار دیا۔ ایک اور سابق چیف جسٹس کو سب سے زیادہ بے ایمان اور جانب دار ججوں میں سے ایک قرار دیا، اور تیسرے کے دور میں بینچ تشکیل اس قدر قابلِ پیش گوئی ہوگئی کہ سپریم کورٹ اندرونی یکجہتی کھو بیٹھی اور عوام نے سپریم کورٹ کے بینچز کو سیاسی ونگ کہنا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے ججوں کے رشتہ داروں سے متعلق مختلف اسکینڈلز کا حوالہ دیا اور کہا کہ تنازعات عموماً خاموشی، تاخیر، استعفے اور تحفظ کے ذریعے دبا دیا جاتا تھا۔ جج جہانزیب بخاری نے لکھا ہے کہ جہاں اعلیٰ عدلیہ طاقت اور مراعات کے مزے لیتی ہے، وہیں ضلعی عدلیہ گھٹن، دبائو اور عدم احترام کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماتحت عدلیہ کو کام کے زیادہ دبائو، غیر محفوظ اور تذلیل کا سامنا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ضلعی ججوں کو روزانہ سیکڑوں مقدمات نمٹانے پر مجبور کیا جاتا ہے، ایک بدتمیز وکیل یا مشتعل سائل کسی بھی مقدمے کو جج سے ایسے چھین سکتا ہے جیسے ٹرائل جج کوئی کلرک ہو۔ خط میں ذاتی سانحات اور ادارہ جاتی عدم حساسیت کا ذکر بھی ہے۔ جج نے لکھا ہے کہ میری اہلیہ کو حمل کے دوران شدید برین ہیمرج ہوا جس سے ہمارا سات ماہ کا بیٹا فوت ہوگیا، لیکن مجھے رخصت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ والد صاحب کو ٹرمینل کینسر تھا لیکن اس دوران چھٹی کی درخواست بھی نظر انداز کی گئی اور عملے کو مبینہ طور پر ہدایت کی گئی کہ میرے فون یا پیغامات کا جواب نہ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنی 16؍ سالہ ملازمت کے عوض کوئی مراعات یا سہولتیں نہیں مانگوں گا اور اعلان کیا کہ وہ جن ججوں پر الزام لگا رہے ہیں ان کیخلاف گواہی دینے کو تیار ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ میں ان سب کیخلاف بطور شکایت کنندہ اور استغاثہ پیش ہونے کو تیار ہوں، چاہے میں تنہا کیوں نہ ہوں۔ جج نے پارلیمنٹ سے مداخلت کی اپیل کی اور کہا کہ صرف پارلیمنٹ ہی ایسے معاملات کو بامعنی انداز میں دیکھ سکتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسے تمام اعلیٰ عدلیہ کے ارکان کی تحقیقات کی جائیں جن کے طرز عمل، تعلقات یا خاندانی تنازعات نے سیاسی رعایت، مالی بے قاعدگی، بیرونی اثر و رسوخ یا آئینی حلف سے انحراف کا تاثر پیدا کیا ہو۔ انہوں نے یہ بھی زور دیا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری سروس ہائیرارکی سے ہو جیسا کہ دیگر تمام سروسز (سی ایس ایس اور مسلح افواج) میں ہوتا ہے، کیونکہ بار، سیاست یا کسی ایک شخص کے اختیار کے ذریعے اپنے من پسند افراد کو فیصلہ کن عہدوں پر بٹھانا اس جانبدار عدالتی نظام کی جڑ ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ یا سابق افراد کی وفاداریاں آئین کیلئے نہیں بلکہ اس لیے ہیں کہ اب ان کی طاقت کی بساط محدود ہو چکی ہے یا ختم ہو گئی ہے۔ انہوں نے چیلنج کیا کہ وہ سب نام نہاد ججز سامنے آئیں اور اپنی طرف سے کی گئی کوئی ایک ایسی تشریح دکھا دیں جو واقعی ملک کے عوام کے مفاد کا سبب بنی ہو۔ انہوں نے لکھا ہے کہ پاکستان ایسی عدلیہ کا مستحق ہے جو شہریوں کی حفاظت کرے، نہ کہ قانونی نتائج کو تبدیل کرے۔ ایسی عدلیہ کا مستحق ہے جو آئین کا دفاع کرے، نہ کہ اسے جھکائے۔ ایسا نظام درکار ہے جو نوجوان وکلاء کو سیکھنے کے ذریعے آگے بڑھائے، نہ کہ اشتعال انگیزی اور سرپرستی سے۔ اس لیے گزارش ہے کہ پارلیمنٹ اپنا آئینی کردار واپس لے، عدالتی اشرافیہ کا خاتمہ کرے اور ایک شفاف، میرٹ پر مبنی ترقی کا نظام قائم کرے جو ضلعی عدلیہ سے ججوں کے انتخاب پر مبنی ہو، جیسے تمام قومی سروسز میں ہوتا ہے۔ صرف اسی صورت صوابدیدی تقرریوں اور ادارہ جاتی قبضے کا خاتمہ ہوگا۔ اگر پارلیمنٹ نے فیصلہ کن اقدام کیا تو آئندہ نسلیں انصاف پائیں گی، اور اگر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا گیا تو وہی زنجیریں ورثے میں ملیں گی۔ انہوں نے اپنے خط کا اختتام ان الفاظ پر کیا: پاکستان اور اس کی جمہوریت ہمیشہ زندہ باد۔رابطہ کرنے پر عدلیہ کے ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر انہیں اپنی رخصت کے حوالے سے کوئی شکایت تھی تو انہیں لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنا چاہئے تھی۔ ذرائع نے مزید کہا کہا کہ بحیثیت جج، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اگر ان کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ روا رکھا گیا ہے تو ان کے پاس قانوناً کیا وسائل دستیاب ہیں۔مستعفی جج جہانزیب بخاری کا موقف ہے کہ ہائی کورٹ ترجمان کوئی ہے نہی لیکن جو بھی ہے اسے یہ پڑھ لینا چاہیے کہ میں نے استعفی میں یہی لکھا ہے کہ جو چھٹی کی درخواست میں نے والد صاحب کے جگر کے لاعلاج کینسر کی تشخیص سمیت ہمراہ تمام میڈیکل سرٹیفکیٹ لگا کر دی تھی اس میں یہی لکھا ہے کہ ڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہے اور والد صاحب بستر مرگ پر ہیں ۔ وہ دو ماہ سے درخواست لے کر بیٹھے ہیں مجھے آج تک یہی نہیں پتا کہ درخواست منظور ہوئی ہے یا مسترد۔ بجائے مجھے خود کچھ بتانے کہ انہوں نے سٹاف کو میرا فون اٹھانے یا میسج کا جواب دینے سے بھی منع کر دیا، میرے پاس سب ریکارڈ ہے۔اعلی عدلیہ پہلے اپنی تاریخ دیکھے گریباں میں جھانکے اور اپنے جرم دیکھے اور میرا جرم یہ ہے کہ والد صاحب کے پاس اس وقت میں بطور بیٹا ساتھ رہنا چاہتا ہوں اور مجھے اس پر فارغ کرنا ہے تو کر دیں میں آپ کے پاس چھٹی کی بھیک مانگنے نہیں آؤں گا۔ہائی کورٹ کے پاس کوئی لیٹر ہے تو بتائے ۔اندر کھاتے اگر کوئی کاروائی کر رہے ہیں تو کر لیں میں نے یہ لکھا ہے آخر میں کہ آپ اپنی خواہش پوری کر لیں برخاست کرنے کی کیونکہ اسی دھونس دھاندلی کی وجہ سے تو نوکری چھوڑی ہے۔

اہم خبریں سے مزید