کراچی (نیوز ڈیسک) غزہ میں صحافیوں کے خاندان نشانے پر، دو سال میں 706 کو شہید کی گیا، شہدا میں خواتین، بزرگ اور بچے شامل ہیں۔بفلسطینی جرنلسٹس سنڈیکیٹ نے الزام لگایا کہ اسرائیل صحافیوں کو خاموش کرانے کیلئے اجتماعی سزا کی منظم پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ دوسری جانب بارش اور سردی نے انسانی بحران کو مزید سنگین بنا دیا۔ شدید بارشوں سے خیمہ بستیاں زیرِ آب، سردی سے بچوں سمیت اموات، جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی خلاف ورزیاں جاری، شہدا کی مجموعی تعداد 71 ہزار سے بڑھ گئی۔ عرب میڈیا کے مطابق غزہ میں اسرائیلی جنگ کے نتیجے میں انسانی بحران ایک نئے اور زیادہ سنگین مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جہاں ایک طرف فلسطینی صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو منظم طور پر نشانہ بنانے کے الزامات سامنے آ رہے ہیں تو دوسری جانب شدید بارشوں، سردی اور تیز ہواؤں نے بے گھر آبادی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ فلسطینی جرنلسٹس سنڈیکیٹ کی فریڈمز کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 706 فلسطینی صحافیوں کے رشتہ دار اسرائیلی حملوں میں مارے جا چکے ہیں، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں، جبکہ یونین کا کہنا ہے کہ یہ ہلاکتیں جنگی نقصان نہیں بلکہ صحافیوں کی رپورٹنگ دبانے کے لیے اجتماعی سزا کی دانستہ حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں 436، 2024 میں 203 اور 2025 میں اب تک کم از کم 67 صحافیوں کے اہلِ خانہ جاں بحق ہوئے، حتیٰ کہ جب متاثرہ خاندان جبری نقل مکانی کے بعد خیمہ بستیوں اور عارضی پناہ گاہوں میں رہائش پذیر تھے تب بھی حملے جاری رہے۔ اسی دوران غزہ میں موسمِ سرما کی شدید بارشوں اور پولر لو پریشر سسٹمز نے تباہی میں اضافہ کر دیا ہے، جہاں دسیوں ہزار بے گھر فلسطینی ملبے کے درمیان خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بارش کے باعث خیمے ڈھے گئے، کیچڑ اور گندا پانی آبادیوں میں پھیل گیا اور حکام کے مطابق دسمبر میں اب تک کم از کم 15 افراد، جن میں تین نومولود بچے بھی شامل ہیں، سردی اور ہائپوتھرمیا کے باعث جان کی بازی ہار چکے ہیں۔