کراچی (ذیشان صدیقی/اخترعلی اختر) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیرِ اہتمام چار روزہ ”اٹھارہویں عالمی اردو کانفرنس 2025 – جشنِ پاکستان“ کے چوتھے روز ”بلوچی ادب و ثقافت“ کے عنوان سے ایک فکری و ادبی سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں بلوچی ادب و ثقافت کےفروغ کیلئےایسے پروگراموں کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اس اجلاس میں بلوچی زبان، ادب، تاریخ اور ثقافتی ورثے پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ سیشن میں ممتاز ادیب، دانشور اور صحافی اسحاق خاموش، رمضان بلوچ، زبیدہ انور بلوچ، صادق مری اور سعید سربازی نے اظہارِ خیال کیا جبکہ نظامت کے فرائض وحید نور نے انجام دیئے۔ بلوچی اجلاس کے انعقاد پر سعید سربازی نے احمد شاہ کا شکریہ ادا کیا ۔ انہوں نے صدیق بلوچ کی خدمات قابل تعریف ہیں، وہ نہ صرف لیاری کے سفیر تھے بلکہ پاکستانی اور ایرانی بلوچستان کے حوالے سے بھی ان کی نمایاں خدمات ہیں۔ انہوں نے دو ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں، بلوچستان ایکسپریس اور آزادی جیسے اخبارات کے ذریعے بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کیا۔ اسحاق خاموش نے اپنی گفتگو میں سید ظہور شاہ ہاشمی کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ محض ایک شاعر یا ادیب نہیں بلکہ ایک فکری تحریک اور زندہ ادارہ تھے۔ انہوں نے کہاکہ سید ظہور شاہ ہاشمی ان چند شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے لفظ کو عبادت، قلم کو امانت اور زبان کو اپنی شناخت سمجھا۔ زبان کسی بھی قوم کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتی ہے جو اس کے ماضی، حال اور مستقبل کو جوڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جن کی زبان زندہ رہتی ہے اور بلوچ قوم کے لئے بلوچی زبان ایک انمول خزانہ ہے، جسے تحریری شکل دینے میں سید ظہور شاہ ہاشمی کا کردار نہایت نمایاں ہے۔ زبیدہ انور بلوچ نے اپنے والد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچ آرٹ، ادب اور قوم کے لئے ایک نمایاں شخصیت تھے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں اور اس سے قبل پہلی بلوچ فلم بنانے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔