اسلام آباد (رپورٹ حنیف خالد)شوگر انڈسٹری نے درآمدی چینی کے بیانیے کو بے بنیاد قرار دے دیا،پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے واضح کیا کہ کچھ حلقوں کا یہ مؤقف بے بنیاد ہے کہ ملک کی چینی کی ضروریات مسلسل درآمدات کے ذریعے پوری کی جا سکتی ہیں یا گنے پر لگنے والے وسائل کسی اور فصل کیلئے بہتر استعمال ہو سکتے ہیں۔ ترجمان کے مطابق پاکستان دنیا میں گنے سے چینی پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ،شوگر انڈسٹری ٹیکسٹائل کے بعد دوسری بڑی زرعی صنعت ہے، جو سالانہ تقریباً 4 ارب ڈالر کا درآمدی متبادل فراہم کررہی ہے۔ ایسوسی ایشن کے مطابق موجودہ ایکس مل قیمتوں میں شوگر انڈسٹری کیلئے اخراجات پورے کرنا مشکل ہو چکا ، جس کے باعث 12 شوگر ملیں بند اور کئی شدید مالی دباؤ کا شکار ہیں۔ ترجمان نے زور دیا کہ شوگر سیکٹر کی ڈی ریگولیشن وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ڈی ریگولیشن کی صورت میں بغیر اضافی سرمایہ کاری سالانہ 12 ملین میٹرک ٹن پیداوار اور 6 ملین میٹرک ٹن قابل برآمد سرپلس حاصل کیا جا سکتا ہے، جس سے چینی کی برآمدات سے 5 ارب ڈالر اور ایتھانول سے مزید ایک ارب ڈالر کمایا جا سکتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ سازگار پالیسی کے ذریعے گنے کی ذیلی مصنوعات پر مبنی مزید صنعتیں قائم کی جا سکتی ہیں۔ برازیل اور بھارت کی طرح ایتھانول کو ایندھن کے طور پر فروغ دے کر پاکستان توانائی کی درآمدات میں نمایاں کمی لا سکتا ہے۔ بائیو ایتھانول بڑھتی ہوئی توانائی کی طلب پوری کرنے کا کم لاگت حل ہے۔ حکومت کی جانب سے بلند گنا نرخ اور کم چینی قیمت کا دباؤ صنعت کو ناقابل عمل بنا رہا ہے۔