• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجذوب کی خواہش...انداز بیاں …سردار احمد قادری

مجذوب سعود ہمیں ”المغرب“ کے پچھلے سفر میں ملا تھا۔ اس وقت اس کی حالت عجیب تھی۔ وہ اکثر وقت جینز پہنا کرتا اور اس کے اوپر ایک لمبا سا اوورکوٹ۔ باتیں وہ اس وقت بھی عجیب و غریب کرتا تھا، اس کی باتیں بے معنی اور بے مقصد نہیں تھیں۔ وہ معانی سے بھرپور ہوتی تھیں اور مقصد سے خالی نہیں ہوتی تھیں۔ اس کی کیفیت کا کچھ اندازہ یوں ہوا تھا کہ ایک بار اسے کچھ پیسے دیئے گئے تو اس نے قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں صدقہ نہیں لیا کرتا۔ اسے بتایا گیا کہ یہ صدقہ نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ پھر یہ کیا ہے؟ اسے بتایا گیا کہ یہ تحفہ ہے۔ اس نے کہا کہ اگر یہ تحفہ ہے تو میں صرف وہی تحفہ قبول کرتا ہوں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ملتا ہے اس لئے جب تک یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف سے ہے، میں اسے قبول نہیں کروں گا۔ اس کے بار بار اصرار پر یہ کہنا پڑا کہ اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طر ف سے سمجھو، تب اس نے ان پیسوں کو قبول کیا۔ گزشتہ سفر میں اکثر میلے کپڑوں میں نظر آنے والا یہ مجذوب اس بار ایک مختلف روپ میں نظر آیا۔ جب ہم پہلے دن سیدنا عبدالعزیز الدباغ کے مزار پر مراقبہ کررہے تھے تو وہ بھی آن پہنچا۔ اور سلام کرکے بیٹھ گیا، اس کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا۔ اس نے ٹراوٴزر اور شرٹ پہنی ہوئی تھی، جلدی سے اس نے اپنے تھیلے میں سے اپنا جبہ نکالا اور سب کے سامنے اس کو پہنا۔ پھر اس نے سفید ٹوپی نکالی اسے سر پر رکھا، پھر تھیلے میں سے ایک سفید رومال نکالا اور اسے خوبصورتی سے ٹوپی کے اوپر اوڑھ لیا۔ اس نے مجھے دیکھ کر آنکھ ماری، شاید وہ یہ پوچھ رہا تھا کہ اس نئے روپ میں کیسا لگ رہا ہوں۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بتایا کہ بہت اچھے لگ رہے ہو، اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھ کر چوم لئے۔ یہ اس کا پسندیدہ انداز ہے جب وہ کسی بات پر خوش ہوتا ہے تو اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اپنے ہونٹوں پر رکھ کر چوم لیتا ہے۔ آج وہ پہلے کی نسبت ذرا خاموش تھا۔ پہلے ہر منٹ میں کم از کم ایک بار ”احدنا احد“ (ہمارا ایک۔ ایک ہی ہے) کا نعرہٴ مستانہ لگاتا تھا۔ اب وہ خاموشی سے ہمارے ساتھ مراقبہ میں شریک تھا اور قبر شریف کے سرہانے بیٹھا اذکار میں مصروف تھا۔ ہمارا مراقبہ تقریباً تین گھنٹے طویل ہوتا ہے۔ مراقبہ کے آخری مرحلے میں شیخ احمد دباغ روحانی طور پر ہمیں بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں لے گئے۔ کشف کے مراحل سے گزرنے والے اور باطنی آنکھوں سے دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آقا کریم علیہ السلام کے دورِ باسعادت کی مسجد نبوی ہے، فرش زمین پر ہم اپنے شیوخ طریقت سیدنا عبدالقادر الجیلانی، سیدنا عبدالعزیز دباغ اور شیخ احمد دباغ کے ساتھ آقائے دوجہاں سرورِ کائنات سیدنا محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہیں۔ ادھر کچھ ساتھی مراقبہ میں کشف کی حالت میں بارگاہِ نبوت کی حضوری کی کیفیت سے سرشار ہو رہے تھے اسی لمحے مجذوب کا مخصوص نعرہ بلند ہوا۔ ”احدنا احد“ اکثر حاضرین چونک پڑے، کچھ ابھی تک حالت سرشاری میں تھے۔ مراقبہ ختم ہوا تو شیخ احمد دباغ نے اس فقیر سے کہا کہ حاضرین محفل کو اس محفل کی کیفیات سے آگاہ کیا جائے جہاں ہم روحانی طور پر حاضر تھے۔ میں آقا کریم علیہ السلام کی مہمان نوازی اور کرم نوازی کا تذکرہ کر رہا تھا کہ کس طرح زمزم اور کھجور سے اپنے غلاموں کی مہمان نوازی فرمائی۔ کس طرح نصیحتیں ارشاد فرمائیں۔ کس طرح راہ سلوک پر چلنے والوں کو اپنی سنتوں کی اتباع کا درس دیا۔ ابھی میں یہ گفتگو کررہا تھا کہ مجذوب نے بلند آواز سے کہا اور خواتین کے لئے سیدہٴ کائنات سیدہ فاطمہ الزہرا نے کرم نوازی فرمائی ہے۔ مراقبہ ختم ہوا، اس دن شام کو ہمارے میزبان مجھے ایک فارماسسٹ کے پاس لے گئے۔ ان کی فاس کے جدید شہر کے حصے میں بہت بڑی فارمیسی (Pharmacy) ہے۔ اس فارمیسی کے مالک ایک بزرگ ہیں جو خود بھی تصوف سے بہت گہرا تعلق رکھتے ہیں اور اہلِ تصوف سے محبت رکھتے ہیں۔ میں گاڑی میں بیٹھنے لگا تو مجذوب اسعد خاموشی سے میرے ساتھ آکر بیٹھ گیا اور کہا میں بھی تمہارے ساتھ چل رہا ہوں اور پھر میرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ لے کر زور سے نعرہ لگایا ”احدنا احد“ ہم فارمیسی کے ایک حصے میں خوبصورت طریقے سے آراستہ دفتر میں بیٹھے تھے کہ دوران گفتگو مجذوب نے اپنی گفتگو شروع کردی۔ گفتگو کیا تھی، ایک خوبصورت خطبہ تھا جس میں فصیح و بلیغ عربی میں آقا کریم علیہ الصلوٰة و السلام کی شان اقدس کا اتنے حسین اور عمدہ پیرائے میں بیان تھا کہ میں حیرانی سے دیکھنے لگا کہ یہ کیسا مجذوب ہے جو بظاہر ہم جیسے عقل مند نظر آنے والوں سے زیادہ احسن، خوبصورت، عمدہ، دلکش، اثر آفریں اور روح پرور انداز میں سید الوجود صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک دل نشیں انداز میں کررہا ہے۔ ہم فارمیسی سے باہر آئے تو شام کے دھندلکے گہرے ہو رہے تھے۔ باہر خوبصورت درختوں اور لمبی عمارتوں کے درمیان طویل سڑک پر اکا دکا گاڑیاں آرہی تھیں، صاف ستھرے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ تھاما اور کہنے لگا ”تمہیں پتہ ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ان آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میں نے عقیدت سے پوچھا، وہ کیسے؟ وہ وہیں کھڑا ہوگیا، اپنا سر جھکایا اور پھر اس کی زبان سے اس داستان کرم کا تذکرہ شروع ہوا۔ وہ اپنی خوبصورت اور حسین عربی میں اپنا حال سنا رہا تھا اور میں ہمہ تن گوش سن رہا تھا۔
”فاس کی ایک سڑک پر چلتے ہوئے ایک رات میرے سامنے نور کا ایک بادل آگیا۔ میں رک گیا۔ ہر طرف اس نورانی بادل کے اثرات تھے، پھر اس نورانی بادل سے ایک نورانی روشنی نکلی اور پھر میری آنکھیں چندھیا گئیں۔ مجھے حکم دیا گیا کہ آنکھیں کھولو، میں نے ادب سے آنکھیں اوپر اٹھائیں تو کیا دیکھتا ہوں کہ سیدالوجود صلی اللہ علیہ وسلم میرے سامنے جلوہ فرما ہیں۔ آپﷺ مجھے دیکھ کر مسکرا رہے ہیں، پھر آپ نے مجھے قریب بلایا، میں آپ کے قدموں سے لپٹ گیا۔ آپ نے مجھے اوپر اُٹھنے کا ارشاد فرمایا اور پھر میرے کان میں کچھ فرمایا جو نہ قرآن تھا نہ حدیث تھی۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا لیکن اس سے میرا پورا جسم روشن ہوگیا اور میں اپنے جسم کے نور کو خود دیکھنے لگا۔ میرے دل میں آیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کروں کہ اپنے مقدس کاندھوں کے درمیان مہرِ نبوت کو چومنے دیں لیکن میرے کچھ کہنے سے پہلے آپ ﷺ نے حکم دیا اب چلے جاوٴ اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا۔ میں نے حکم کی تعمیل کی“۔ یہ کہہ کر مجذوب نے چیخ ماری اور میرے گلے لگ کر زاروقطار رونے لگا۔ وہ روتا جا رہا تھا اور مجھے بھی رُلا رہا تھا اور بار بار کہہ رہا تھا کاش آپ نے مجھے چومنے دیا ہوتا۔ کاش آپ نے مہرِ نبوت کو چومنے کی اجازت دی ہوتی، جس دن ہم سیدنا ادریس اوّل کے مزار پر جانے کے لئے کوچ پر جا رہے تھے مجذوب میری سیٹ پر میرے ساتھ آکر بیٹھ گیا اور چپکے سے میرے کان میں کہا ”میں سلطان المجاذیب“ ہوں۔ مجذوبوں کا بادشاہ۔ میری بس اب ایک ہی خواہش ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ انور کی زیارت کرلوں، کوئی مجھے اور میری بیوی کو وہاں بھجوانے کیلئے مالی طور پر مدد کردے اور ہمارے ٹکٹ کا انتظام کردے۔ پھر کہنے لگا اگر نہ جا سکا تو بھی غم نہیں کیونکہ آقا علیہ السلام ہر وقت میری روح میں ہیں اور میں آپ کی خدمت میں حاضر رہتا ہوں۔ شیخ احمد دباغ نے کہا آہستہ آہستہ مجذوب اپنی اصل حالت میں آجائے گا اور اپنا اصل مقام حاصل کرلے گا اور شاید اسے دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھجوانے کا انتظام بھی ہوجائے گا۔
تازہ ترین