ملک بھر میں عید کی رونقیں عروج پرپہنچنے لگی ہیں ۔لوگ قربانی کے لئے خریدے گئے اپنے جانوروں کی بھگت میں مصروف ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو پچھلے کئی دنوں سے ہی اپنے جانوروں کو بناسنواکر انہیں گھمانا پھرانا بھی شروع کیا ہوا ہے ۔
شہر میں جگہ جگہ چارے اور بھوسے کے اسٹال بھی لگے ہوئے ہیں جہاں سے شہریوں کی بڑی تعداد روزانہ اپنے جانورں کے لئے بھوسے ، چارے کھل، چنے، مکئی ، کٹی اور دیگر اقسام کی چیزیں خریدتی نظر آرہی ہے۔
جانوروں کی سجاوٹ کے لئے استعمال ہونے والے سامان کی دکانوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں چھریوں، بغدوں، مڈیوں اور چٹائیوں کے مختلف اسٹال بھی لگے ہوئے ہیں ۔
جانوروں کی خریدار ی بھی ایک دلچسپ مر حلہ ہوتا ہے جہاں کچھ لوگوں کو تو بیوپاریوں سے بھائو تائو کر کےجانور آسانی سے مل جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ کئی گھنٹے کی محنت اور لمبی تلاش کے بعد بھی خالی ہاتھ ہی گھر واپس آنا پڑتا ہے ۔
قربانی کاجانور گھر لانے سے لےکر اسے قربان کرنے تک اس کے ناز نخرے بھی خوب اٹھائے جاتے ہیں ۔ان کی سجاوٹ کا انتظام، انہیں روز نہلانا دھلانا، مالش کرنا ، اپنے ہاتھوں سے چارہ اور بھوسہ کھلانااور ہر رات دیر گئے تک انہیں پورے محلے اور گلیوں کی سیرکرانا اور ان کی ریس کرانا سب کچھ ان ناز نخروں میں شامل ہے۔
قربانی کے لیے ماہر قصائی کا ملنا اور اسے صحیح طریقے سے ذبح کرنا بھی ایک مشکل اور دیر طلب مرحلہ ہے ۔ اکثر لوگ تو موسمی قصائیوں سے بچنے کےلیے عید سے قبل ہی قصاب بک کر الیتے ہیں ۔
جانوروں کی قربانی کے بعد ایک اہم مرحلہ اپنے عزیزو اقارب ، محلہ داروں ، رشتہ داروں اور غریبوں میں گوشت تقسیم کرنے کا بھی ہے ۔ یہ عمل صرف ایک معاشرتی روایت ہی نہیں بلکہ حکم ِ الٰہی بھی ہے اور اسی میں قربانی اصل مقصدبھی گامزن ہے ۔
عید کے بعد گھروں میں طرح طرح کے لذیذ کھانوں کی تیاری اور دعوتوں کا سلسلہ بھی عید کا ایک اہم جز بن چکا ہے تاہم یہاں ہمیں انشاء اللہ خان کا ایک معروف شعر یاد آرہا ہے ۔
ملاحظہ کیجئے :
’’یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروزِ عیدِ قرباں۔۔۔وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا ۔۔۔‘‘