تحریک انصاف حکومت کی حماقتوں کا بھی جواب نہیں، بعض اوقات ایسی بونگی مارتے ہیں کہ پھر سنبھالنا بھی دشوار ہوتا ہے لیکن غلطی پر شرمندہ ہونے کی بجائے اکڑ جاتے ہیں، بھئی اگر کوئی ناسمجھی کر بیٹھے ہو تو مان جائو ڈھٹائی سے غلطی درست نہیں ہوتی بلکہ گلے ہی پڑتی ہے۔ دور کے ڈھول سہانے اب ساڑھے چار سال بعد تحریک انصاف کےسربراہ کو صوبائی حکومت چلانے میں ناکامی کا احساس ہوا ہے حالانکہ صوبے میں ہر طرف اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔ عمران خان کا کمال کہہ لیں کہ انہیں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے کے فن میں ملکہ حاصل ہے حالانکہ درجنوں بار انکی بات غلط ثابت ہوچکی ہے۔ عمران خان قسمت کے دھنی ضرور ہیں کیونکہ لوگ انہیں اپنا لیڈر مانتے ہیں اس لئے ان کی ہر بات کوسچ سمجھ بیٹھتے ہیں البتہ اکثر ان کی تنقید اور طنزیہ گفتگو ان کے ہی گلے پڑتی ہے۔ جنگلہ بس جنگلہ بس کی رٹ لگاتے رہے اب پشاور میں بس منصوبہ شروع کرنے کیلئے پرویز خٹک ہر پل بے چین ہیں، موٹر وے پر اعتراض کرتے رہے اب حکومت سوات ایکسپریس وے کی تکمیل اور افتتاح کیلئے مری جارہی ہے، پنجاب میں ڈینگی مچھر کو شہباز اور نوازشریف کی چھیڑ بنادیا، اب خود پر آئی تو چیخیں نکل گئیں، ایک مچھر نے تحریک انصاف حکومت کو بائولا کردیا ہے، احتساب کا شور مچایا تو اپنا صوبائی احتساب کمیشن ہی بند کرنا پڑا جس ڈی جی کی مثالیں دیتے تھے انہوں نے ہی کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا، آج سال ڈیڑھ سے احتساب کمیشن چین کی بانسری بجارہا ہے اور عمران خان تماشائی بنے بیٹھے ہیں، صوبائی احتساب کمیشن کا ڈی جی ہوگا اورنہ ہی کوئی کارروائی ہوگی، دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت کے مصداق گڈ گورننس کے دعوے بھی ہوا ہوئے البتہ تحریک انصاف کے کھلاڑی اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے شیروں اور جیالوں کو بھی مات دیتے ہیں۔اب مثال کے طور پر صوبے میں سینکڑوں ڈیموں کی طرح ایک ارب درخت لگانے کا دعویٰ بھی دل کو بھاتا ہے، دنیا بھر میں ستائش ہورہی ہے، اہل علم اور دانش ششدر ہیں کہ خیبرپختونخوا حکومت نے ایک ارب پودے لگانے کا ہدف حاصل کرلیا ہے حالانکہ صوبے میں غریبوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ایک ارب میں کتنے صفر لگتے ہیں، شاید کھلاڑی اربوں اور کھربوں کو خوب جانتے ہیں، اسی لئے لاکھ یا کروڑ کی بجائے ایک ارب پودے لگانے کی ٹھان لی، اب صوبے میں لوگ پریشان ہیں کہ بھئی ایک ارب پودے کہاںلگے ہیں، اگر تحریک انصاف کا دعویٰ درست ہے تو پھر کے پی سرسبز و شاداب صوبہ بن چکا ہے، بقول عمران خان صوبے میں ایک ارب پودوں کی شجرکاری سے غربت کی شرح بھی کم ہوگئی ہے۔ اب اپوزیشن کو فکر لاحق ہے کہ ایک ارب پودے لگاکر تحریک انصاف نے سارا کریڈٹ لے لیا ہے، اب کون انہیں جھٹلاسکتا ہے، کون درخت گنے اور انہیں جھوٹا ثابت کرے۔ مشکل تو یہ ہے کہ ایک ارب پودے گننا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے یا یوں کہہ لیں کہ ناممکن ہے۔ تحریک انصاف نے مخالفین کو خاموش کروانے کیلئے زمین کی پیمائش کے مطابق درختوں کا حساب کتاب لگاکر معاملہ نمٹادیا ہے۔بس چھوٹے موٹے لاکھوںکے گھپلے منظرعام پر آرہے ہیں جن کی اربوں میں کوئی وقعت ہی نہیں، تحریک انصاف کے کھلاڑی ایسی بال کراتے ہیںجس پر مخالف آئوٹ ہوجاتا ہے، ایک ارب درختوں پر 14 ارب روپے لگ گئے، رقم کی تو خیر کوئی بات نہیں، دوسروں نے بھی لوٹ مار کی، اب تحریک انصاف کو خیر سے ایک صوبہ ملا ہے اس لئے چند ارب پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا، تحریک انصاف کے پاس زبردست آئیڈیاز ہیں جن کا جواب ہی نہیں۔ سینکڑوں منی ڈیموں کی طرح ایک ارب درخت لگائیں اور کوئی حساب کتاب بھی نہ کرسکے۔سیلاب آئے تو ڈیم اور پودے بآسانی ڈوب جائیں گے۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ البتہ ایک ارب درختوں کو پانی دینے کا معاملہ زیادہ گمبھیرہے کیونکہ تحریک انصاف نےاس معاملے کاکوئی حل نہیں ڈھونڈا اور پانی دینے کیلئے بھی ایک دو ارب روپے درکار ہوں گے۔ کھلاڑیوں کو اعلان کرنا چاہئےکہ چند ماہ بعد پانی نہ ملنے کی صورت میں جنگل سوکھ گیا تو ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ ایک ارب پودوں میں گھپلوں اور کرپشن کی کہانی کو بے نقاب کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ نہ گنتی ہوگی اور نہ ہی کوئی الزام لگے گا۔ دوسری جانب پرویز خٹک کی کارستانی بھی قابل ستائش ہے جنہوںنے آبیل مجھے مار کے مصداق محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کو وزیراعلیٰ ہائوس میں سوئمنگ پول تعمیرکرنے کے احکامات جاری کئے، گرمی میں یقیناً ہر شخص سوئمنگ پول میں لطف اٹھانا پسند کرتا ہے لیکن غریب صوبے میں پینے کا پانی نہیں اور پرویز خٹک کو سوئمنگ پول کی پڑی ہوئی ہے،موصوف نے غلطی مان بھی لی لیکن ڈھٹائی کا بھی کوئی حال نہیں، فرماتے ہیں کہ وزیراعلیٰ ہائوس کو سرکاری مہمان خانے میں تبدیل کررہے ہیں جہاں ٹیکس دینے والے بڑے سرمایہ کاروں کو رہائش کی سہولت دیں گے، بندہ پوچھے کہ میاں ساڑھے چار سال خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے آج تک تو ایک مہمان اس وزیراعلیٰ ہائوس میں نہیں ٹھہرا اب جانے کے دن قریب آرہے ہیں تو سوئمنگ پول بنانے کا خیال کیوں آگیا۔ پرویز خٹک نے سوئمنگ پول کا آئیڈیا ڈراپ کرتے ہوئے اسے میڈیا کی ذہنی اختراع اور بے بنیاد کہانی قرار دیا ہے۔ بھئی اگر منصوبہ ذہنی اختراع تھا تو آپ نے کس چیز کا فیصلہ واپس لیا ہے۔ سوئمنگ پول کا فیصلہ درست تھا تو پھر واپس کیوں لیا، پرویز خٹک نے شاید دوبارہ وزیراعلیٰ نہیں بننا اس لئے جانے سے قبل سی ایم ہائوس کو سرکاری مہمان خانے میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ بھی کوئی وزیراعلیٰ اس میں رہائش اختیار نہ کرسکے۔ اگر کسی ٹیکس گزار کو سہولتیں دینی ہیں تو پشاور میں بہترین سیون اسٹار ہوٹل یا سرکاری مہمان خانہ تعمیر کرادیں تاکہ مہمانوں کو ٹھہرایا جاسکے۔ بندہ پوچھے میاں وزیراعلیٰ ہائوس میں کوئی سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں یا کوئی تاریخی پرشکوہ عمارت ہے جہاں مہمانوں کو ٹھہرانا لازم ہے۔