• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سول سروس آف پاکستان کے رُکن اختر سعید صاحب کئی سال پہلے ریٹائر ہو گئے۔ وہ لکھنے پڑھنے کے شوقین، سرکاری ملازمت کے جاہ و منصب سے خاص لگائو نہیں رکھتے تھے۔ پنجاب کے سابق گورنر مرحوم غلام جیلانی صاحب نے باغِ جناح میں قائد اعظم لائبریری بنائی تو اختر سعید کو لائبریری سے عشق ہو گیا۔ وہ خاص اجازت لے کر لائبریری سے منسلک ہوئے۔ 1986ء میں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اُنہوں نے اختر سعید صاحب کو سیکرٹری تعلیم تعینات کیا۔ اختر سعید صاحب کوئی بڑا کام کرنا چاہتے تھے۔ اِس حیثیت میں اُنہیں خیال آیا کہ سائنسی علوم سے دُوری ہی پاکستانیوں کی پسماندگی کا اصل سبب ہے۔ اُنہوں نے چیف منسٹر پنجاب کو تجویز دی کہ ڈاکٹر عبدالسلام سے درخواست کی جائے کہ وہ حکومت پنجاب کے لئے سائنسی تعلیم کی پالیسی تشکیل دیں۔ تجویز منظور ہوئی اور ڈاکٹر عبدالسلام جو 1974ء کی قانون سازی کے بعد پاکستان سے دُور ہو چکے تھے، حکومت پنجاب کی درخواست پر کئی ہفتے لاہور میں رہے۔ اُن کے مذہبی عقیدے کے پیشِ نظر حکومت نے یہ بات مشتہر نہ کی۔ چند مہینوں میں پالیسی تیار ہو گئی۔ لاہور میں سائنسی علوم کی ترویج کے لئے ایک بہت بڑے انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کا پلان بنا۔ اِس ادارے کا نام امریکہ کی مشہور درسگاہ ایم آئی ٹی (Massachusetts Institute of Technology) کے وزن پر ایل آئی ٹی(Lahore Institute of Technology)رکھا جانا تھا۔
ڈاکٹر عبدالسلام نے بلامعاوضہ یہ کام مکمل کیا۔ رُخصت ہونے سے پہلے اُن کے اعزاز میں ایک عشایئے کا اہتمام ہوا۔ گنے چُنے افراد کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ پروگرام کے مطابق کھانے کے بعد ڈاکٹر عبدالسلام نے شرکاء کو لیکچر سے نوازنا تھا۔ موضوع کا تعلق فزکس کے شعبہ سے تھا۔ یہ 1986ء کا ذکر ہے۔ میں ایک جونیئر افسر تھا مگر چیف سیکرٹری پنجاب، انور زاہد مرحوم کا اسٹاف افسر ہونے کے ناتے شریک محفل ہوا۔ مرکزی میز پر ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ انور زاہد چیف سیکرٹری پنجاب، اختر سعید سیکرٹری تعلیم اور دوسرے شرکاء کے علاوہ جناب مختار مسعود بھی موجود تھے۔
قارئین میں سے بیشتر لوگ ڈاکٹر عبدالسلام کے بارے میں جانتے ہوں گے۔ اگر کسی کو علم نہیں تو عرض ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے گورنمنٹ اسکول جھنگ سے میٹرک پاس کیا۔ پنجاب بھر میں اوّل آئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم رہے اور پھر بیرونِ ملک ریسرچ کرنے چلے گئے۔ وہ پاکستان اور خاص طور پر جھنگ سے اپنے تعلق پر بہت فخر کرتے تھے۔ جب اُنہیں فزکس کے شعبے میں نوبیل انعام ملا تو اُن کے بہت سے انٹرویو شائع ہوئے۔ عام طور پر اُن سے اُس ادارے کے بارے میں پوچھا جاتا جہاں اُنہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ بہت فخر سے جھنگ کے اسکول کا ذکر کرتے۔ اُن کی نظر میں وہ بہت اعلیٰ تعلیمی ادارہ تھا۔ اسی طرح اُنہیں اپنی دیہاتی تہذیب اور ثقافت پر بھی فخر تھا۔ کبھی کبھار وہ جھنگ کے انداز میں پگڑی پہن کر تقریبات میں شرکت کرتے۔ نوبیل انعام ملنے کے بعد بھی جھنگ اور پاکستان سے تعلق پر فخر میں کمی نہ آئی۔
مجھے یقین ہے کہ مختار مسعود کے بارے میں بھی قارئین معلومات رکھتے ہوں گے۔ وہ دسمبر 1926ء میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجوایٹ تھے۔ پاکستان بننے کے بعد سول سروس آف پاکستان کے رُکن بنے۔ وہ اُردو کے بلند پایہ صاحبِ علم ادیب تھے۔ اُن کی کتابیں آوازِ دوست، لوح ایام اور سفر نصیب، اُردو کی اہم تخلیقات میں شمار کی جاتیں ہیں۔ اُن کی کتاب آوازِ دوست کے بہت سے فقرے آج بھی لوگوں کو ازبر ہیں۔ سرکاری حیثیت میں مینارِ پاکستان کی تعمیر سے منسلک رہے۔ اِس تعیناتی پر اُن کا ایک جملہ بہت مشہور ہوا۔ ’’وہ مقام جہاں خواہشِ قلبی اور فرضِ منصبی کی سرحدیں مل جائیں، اُسے خوش بختی بھی کہتے ہیں۔‘‘ مختار مسعود صاحب سرکاری ملازمت میں وفاقی حکومت کے سیکرٹری تعلیم بھی رہے۔
اتنی قد آور شخصیات کے درمیان ہونے والی بات چیت سننا میرے لئے ایک بہت پرکشش موقع تھا۔ دونوں آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ حیرت کی بات تھی کہ ڈاکٹر عبدالسلام ٹھیٹھ پنجابی میں بات کرتے اور مختار مسعود انتہائی شستہ اُردو میں جواب دیتے۔ یکایک ڈاکٹر عبدالسلام نے مختار مسعود کو مخاطب کر کے کہا ’’میں تواڈے نال پنجابی بول ریاں تے تُسیں اُردو وچ جواب دے رے او‘‘ (میں آپ سے پنجابی بول رہا ہوں اور آپ اُردو میں جواب دیتے ہیں) شاید ڈاکٹر عبدالسلام کا احترام ملحوظ تھا کہ مختار مسعود خاموش رہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام پھر گویا ہوئے ’’ٹھیک اے، تواڈے والد وی علی گڑھ پڑھاندے سَن، تے تُسیں وی اوتھوں پڑھے او، پر پچھوں تے گوجرانوالے دے او۔ پنجابی تواڈی ماں بولی اے‘‘ (یہ درست ہے کہ آپ کے والد علی گڑھ میں پڑھاتے تھے اور آپ بھی وہاں طالبعلم رہے مگر آپ کا تعلق تو گوجرانوالہ سے ہے۔ پنجابی آپ کی مادری زبان ہے) جواب میں مختار مسعود نے شستہ لہجے میں کہا ’’ڈاکٹر صاحب! میں پنجابی بھول چکا ہوں۔‘‘ اِس بات کا جواب ڈاکٹر عبدالسلام نے مسکرا کر دیا ’’کدی ماں بولی وی بھلدی اے‘‘ (کبھی مادری زبان بھی بھولتی ہے۔) مختار مسعود نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’میں نے اُردو زبان پر جس لیول (Level) پر کام کیا ہے اُس کے لئے پنجابی کا بھولنا ضروری تھا۔‘‘
یہ بات سُن کر ڈاکٹر عبدالسلام کے چہرے پر ایک عجیب تأثر آیا۔ اُنہوں نے شرکاء محفل سے عمومی طور پر پنجابی میں کہا ’’میرے خیال میں اظہارِ رائے کے لئے پنجابی سے بہتر کوئی زبان نہیں۔ اگر سننے والا پنجابی سمجھتا ہو تو اُسے مشکل سے مشکل بات بھی بہت آسانی سے سمجھائی جا سکتی ہے۔ مجھے تو اِس زبان سے عشق ہے۔‘‘ مختار مسعود صاحب نے اِس بات پر کوئی ردِ عمل نہ دیا۔ شرکاء محفل کے چہرے پر البتہ مسکراہٹ نظر آ رہی تھی۔ کھانا ختم ہونے کے قریب تھا۔ اِس کے بعد ڈاکٹر صاحب کا لیکچر تھا۔ اچانک ڈاکٹر عبدالسلام نے غیر معمولی درخواست کی۔ اُنہوں نے پنجابی زبان میں اپنے میزبان سے کہا ’’اختر سعید صاحب! اِس کمرے میں تو سب لوگ پنجابی ہی ہیں، اگر میں اپنا لیکچر پنجابی میں دُوں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا۔‘‘ ڈاکٹر عبدالسلام کے علمی رُتبے سے سب مرعوب تھے، اُنہیں کون انکار کر سکتا تھا۔ قصہ مختصر، ڈاکٹر عبدالسلام نے فزکس کے ایک ٹیکنیکل اور دقیق موضوع پر پنجابی زبان میں ایک گھنٹہ لیکچر دیا۔ اُن کی گفتگو ختم ہوئی تو تمام حاضرین بشمول جناب مختار مسعود دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔

تازہ ترین