پاکستان میں مہندی اور مایوں کی رسموں کا آغاز فاطمہ ثریا بجیا اور حسینہ معین کے ڈراموں کے ذریعے رائج ہوا۔ ایک ہی ٹی وی تھا، جو کچھ اس پر آتاتھا سیدھا دل و دماغ میں گھر کرجاتاتھا اور گھر گھر ہوتا چلاتا جاتاہے۔ وقت بدلتا گیا ، پہلے مایوں کا مطلب تھا کہ لڑکی صرف پیلا جوڑا پہنے گی ، اب اس میں بھی دیگر رنگوں کی آمیزش ہوتی جارہی ہے۔
اب صرف لڑکی کوہی نہیں ساری تقریب کو ابٹن ملا جاتا ہے ۔ یعنی شامیانے قناتوں سے لے کر ملبوسات تک زرد رنگ کے بجائے نت نئے رنگ اپنا رنگ جمانےلگے ہیں۔
بڑے پیمانے پر مایوں کی رسمیں ہونے لگی ہیں۔ لڑکا لڑکی دونوں کے کزنز لڑکے اور لڑکیوں اور دوستوں سہیلیوں کے لئے باقاعدہ ڈریس کوڈ ترتیب دیا جاتا ہے ۔ یعنی لڑکے سارے ایک جیسا لباس پہنیں گے اور لڑکیاں ایک جیسا۔ یہ غالباً واحد موقع ہوتا ہے جب ایک عورت اپنے ہوش و حواس اور برضا و رغبت دوسری عورت کے عین مشابہ لباس خریدنے اور پہننے پر آمادہ نظر آتی ہے ۔ اسی تقریب میں بَری بھی پہنچا دی جاتی ہے۔ جس کی پھر باقاعدہ نمائش ہوتی ہے ۔
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ گزشتہ چند برسوںسے فیشن ٹرینڈز تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور برائیڈل ڈریسز میں تو خاصی ورائٹی آگئی ہے یہی وجہ ہے کہ تمام فیشن ڈیزائنرز منفرد تجربات سے کام لے رہے ہیں۔روایتی موٹیوزاور راجستھانی رنگ خاصے مقبول ہیں،خصوصی طور پر لال اور شاکنگ پنک رنگوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔جالی کے دوپٹے ،غرارے ،چھوٹی اور لمبی دونوں طرح کی قمیصیں حتیٰ کہ مون لائٹ بھی فیشن میں خاصی مقبول ہے۔
سٹونز،دبکے کا کام ،نقشی گوٹے کو بھی ترجیح دی جا رہی ہے۔گوٹے کا فیشن دوبارہ دیکھنے میں آرہا ہے ،غراروں پر پٹی پاجامہ ،چھوٹی بیلٹ والے فراق اور سرخ کے ساتھ برائٹ رنگ چل رہے ہیں۔ جالی کا استعمال بہت ہی خوبصورت انداز سے کیا جا رہا ہے ۔بلاشبہ جالی کے بازو اوردوپٹوں پر مختلف قسم کا کام اور کام والی پٹیاں لباس کی خوبصورتی میں مزیداضافہ کرتی ہیں۔
لڑکیاں ماڈرن طرز کے روایتی لباس پہننا زیادہ پسند کر رہی ہیں اور اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم ڈریس ڈیزائنرز بھی عروسی ملبوسات کی تیاری کر رہے ہیں۔مغربی عروسی جوڑا یعنی میکسی سے ملتی جلتی قمیضوں کا استعمال لہنگوں اور شراروں کے ساتھ بلاشبہ ایک نیا تجربہ ہے۔
جالی کی قمیصیںاور ان کے گھیروں پر جامہ ور اور مختلف قسم کی پٹیاں لگا کرلہنگے کی شرٹ کو سجایا جا رہا ہے۔ لہنگے اور غراروں کے ساتھ لانگ گائون اور اسپر خوبصورت کام بھی خواتین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔اس کے علاوہ کرسٹل کے موتیوں کے موٹیوز بھی فیشن میں مقبول ہیں۔ایک زمانے میں ہیوی شرٹس اور دوپٹوں کا رواج بہت عام ہو رہا تھا لیکن اب صرف قمیض کے گھیرے اور گلے پر کام چل رہا ہے۔
اب جبکہ مہندی اور مایوں کے ملبوسات میں رنگوں کی کوئی قید نہیں رہی توآپ اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی رنگ کا جوڑا بنواسکتی ہیں۔ آج کم کام اور ماڈرن کٹس پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ ریشم اور دھاگے کا کام آج بھی اپنے اندر انفرادیت قائم رکھے ہوئے ہے۔فیشن میں اتنی جددیت دیکھنے کو مل رہی ہے کہ ہر کوئی اپنی شخصیت کے مطابق فیشن کر رہا ہے ۔
مایوں اور مہندی میں جو خوبصورتی ، ڈانس ، گلیمر ، ارمان ، پھولوں کی خوشبو اپنے انداز بکھیرتی ہے وہ دلہن بننے والی ہر لڑکی کے دل کی آواز ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ ان تقریبات کو اپنی زندگی کے حسین لمحات میں سے ایک گردانتی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ بھی اس رسم میں کسی قسم کی کمی نہ رہ جائے۔