• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سدا بہار فن کار، بہترین ڈراما نویس، جاوید جمال کی باتیں

سدا بہار فن کار، بہترین ڈراما نویس، جاوید جمال کی باتیں

بات چیت : سیّد خلیل الرحمٰن، فرّخ شہزاد ملک، کوئٹہ

عکّاسی : رابرٹ جیمس

سنگلاخ پہاڑوں کی سَرزمین، بلوچستان کئی نام وَر اداکاروں کا مسکن رہی ہے، جنہوں نے اپنی بہترین پرفارمینس سے نہ صرف لوگوں کے دِل جیتے، بلکہ اپنے صوبے کی شناخت و پہچان بھی بنے اور ان ہی جگمگاتے ستاروں میں ایک نام، جاوید جمال کا بھی ہے۔ اُنہیں اُردو سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ اداکاری کے ساتھ ڈراما نویس بھی ہیں۔ اگرچہ اب کوئٹہ سے کراچی شفٹ ہوچکے ہیں، لیکن اپنے آبائی علاقے سے تعلق نہیں توڑا۔ گزشتہ دِنوں جب کوئٹہ آئے، تو ہم نے جنگ، سنڈے میگزین کے معروف سلسلے ’’کہی ان کہی‘‘ کے لیے اُن سے خصوصی بات چیت کی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

سدا بہار فن کار، بہترین ڈراما نویس، جاوید جمال کی باتیں
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

س : خاندان ، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج :آبائی شہر مستونگ، بلوچستان ہے، لیکن میرا بچپن اور جوانی کا دَور کوئٹہ میں گزرا۔ والد صاحب بزنس مین تھے، جنہوں نے تربیت کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں بخشی۔ رہی بات تعلیم کی، تو ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول پرنس روڈ ، کوئٹہ سے حاصل کی، پھر میٹرک گورنمنٹ سنڈیمن ہائی اسکول، کوئٹہ سے کیا۔ ان ہی دِنوں والد صاحب کا سایا سَر سے اُٹھ گیا،تو میرے کم زور کاندھوں پر گھر کی ذمّے داری آن پڑی۔ یوں کم عُمری ہی میں بہ طور کلرک، شعبۂ تعلقات عامہ میں ملازمت اختیار کی۔ اس دوران پرائیویٹ طور پر ماسٹرز بھی کیا اور پھر اپنی سخت محنت ہی کے بل بوتے پر ترقی بھی پائی۔ گزشتہ برس اسی محکمے سے ریٹائرمنٹ لی ہے۔

س: اپنا نام خود رکھ سکتے تو کیا رکھتے؟

ج : ویسے میرا اصل نام سلطان جاوید ہے، لیکن جب ٹی وی انڈسٹری میں قدم رکھا، تو لیجنڈ اداکار، فردوس جما ل سے متاثر ہو کر نام جاوید جمال رکھ لیا۔

س : بچپن کیسا گزرا، کبھی کسی بات پر پٹائی ہوئی؟

ج : ہنستے کھیلتے، شرارتیں کرتے گزر گیا۔ ویسے اکثر فلمیں دیکھنے پر مار پڑتی تھی۔

س :زمانۂ طالب علمی میں کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا اور اسکول کی انڈر19کرکٹ ٹیم کا حصّہ بھی رہے۔ یہ اداکاری کا شوق کیسے ہوا؟

ج :کرکٹ کھیلنا میرا جنون تھا، لیکن والدین کے انتقال کے بعد مَیں اپنا شوق زیادہ عرصے برقرار نہیں رکھ سکا۔ چوں کہ فلمیں بہت دیکھتا تھا، تو وہیں سے دِل اداکاری کی جانب مائل ہوا۔

س : شوبز میں باقاعدہ آمد کب ہوئی؟

ج : میرے فنی کیریئر کا آغاز1984ء میں ایک براہوی ڈرامے ’’پیدا گیر‘‘ سے ہوا۔ اس کے بعد سے تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔

س : اندازاً کتنے ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھاچکے ہیں اور کن کن زبانوں پر عبور حاصل ہے؟

ج : اصل تعداد تو یاد نہیں۔ کوئٹہ سینٹر سے نشر ہونے والے بے شمار اُردو ڈراموں میں کام کیا ہے، پھر25سے زائد براہوی15سے زائد بلوچی ڈرامے بھی کیے۔ بلوچی براہوی، اُردو، پشتو، پنجابی، ہندکو، سرائیکی، سندھی سمیت تقریباً11زبانوں پر عبور حاصل ہے، اس لیے جس بھی علاقائی ڈرامے میں کام کیا، خوب جم کر کیا۔

س : آپ نے ایک پنجابی فلم ’’شاہ جی‘‘ میں بھی کام کیا تھا اور جب فلم کی شوٹنگ مکمل ہوئی، تو آپ کے لیے مٹھائی تقسیم کی گئی، وہ کیا قصّہ تھا؟

ج : وہ دراصل میرے عمدہ پنجابی لب و لہجے اور ایک بھی ری ٹیک نہ دینے پر شفقت چیمہ نے سیٹ پر مٹھائی تقسیم کی، جو میرے لیے بہت فخر کی بات تھی۔

س : اداکاری کے ساتھ ڈرامے بھی لکھ رہے ہیں، اسی حوالے سے کچھ بتائیں؟

ج : آ ج کل زیادہ تر ڈرامے گِھسے پٹے روایتی موضوعات پر بن رہے ہیں، جن میں ہم سایا مُلک کی جھلک زیادہ نظر آتی ہے۔ بس، اسی سبب ڈراما نویسی کی جانب رجحان ہوا۔ اور مَیں نے پہلا ڈراما ’’تپتی چھائوں‘‘ لکھا، جسے ’’بیسٹ ڈرامے‘‘ کا اعزاز حاصل ہوا۔

س : کتنے ڈرامے لکھ چکے ہیں؟

ج: چار ڈراما سیریلز، 12سنگل پلے، چھے ٹیلی فلمز سمیت ایک یومِ آزادی اسپیشل ڈراما ’’ایسا دیس ہے میرا‘‘ لکھ چکا ہوں، جب کہ مزید پراجیکٹس پر کام جاری ہے۔

س: آج کے اور ماضی کے ڈراموں کا موازنہ کیسے کریں گے؟

ج :ماضی میں باقاعدہ موضوع تلاش کرکے کام کیا جاتا تھا، لیکن اب صرف ریٹنگ کا چکر ہے اور اسی وجہ سے ڈرامے کا معیار گرتا جارہا ہے۔

سدا بہار فن کار، بہترین ڈراما نویس، جاوید جمال کی باتیں

س : کیا بلوچستان میں شوبز انڈسٹری ترقی کا سفر طے کررہی ہے؟

ج : بلوچستان میں اسٹیج، ڈرامے اور فلمی سرگرمیاں نہ ہونے کے سبب سارا انحصار پی ٹی وی، کوئٹہ اسٹیشن پر ہے، مگر بدقسمتی سے اس وقت صرف کوئٹہ ہی نہیں، مُلک بَھر کے دیگر اسٹیشنز میں بھی جس قدر کام ہونا چاہیے نہیں ہورہا۔ اسی لیے کئی نام وَر اداکار جیسے ایوب کھوسہ، جمال شاہ، نیّر اعجاز، ڈائریکٹر عبداللہ بادینی، فاروق مینگل اور عباس کاکڑ وغیرہ بڑے شہروں میں جا بسے۔

س: ایک دَور تھا، بلوچستان میں بھی تھیڑ کی رونقیں بحال تھیں، پھر کیا وجہ ہوئی کہ اب ہُو کا عالم ہے؟

ج : جی، بالکل، ایسا ہی ہے۔ ماضی میں عالی سیدی نے کوئٹہ میں تھیٹر کی بحالی کے لیے خاصا کام کیا، جب کہ لعل حسین ناصر، اے ڈی بلوچ اور دیگر کی خدمات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اصل میں اب زیادہ تر افراد گوشتہ نشین ہو چکے ہیں، پھر تھیٹر کی سرگرمیاں ماند پڑنے کی ایک وجہ خواتین اداکاروں کا نہ ہونا بھی ہے، تو سوچ اور ٹرینڈ میں تبدیلی لائے بغیر تھیٹر کی بحالی مشکل ہی نظر آتی ہے۔

س: ماضی کی نسبت آج کے اداکاروں میں کیا کمی محسوس کرتےہیں؟

ج : ماضی میں ڈائریکٹرز استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ اداکار اور ڈائریکٹر کے درمیان ایک بہت مضبوط رشتہ،’’عزّت و احترام‘‘ کا تھا۔ اُس دَور میں پورا سین لفظ بہ لفظ یاد کیا جاتا، جملوں کی ادائی اور تلفّظ سمیت باڈی لینگوئج پر خاص توجہ دی جاتی، لیکن اب صورتِ حال یک سر مختلف ہے۔

س : جس شہر میں اپنا بچپن گزارا، روزگار ملا، وہاں سے کراچی منتقل ہوگئے، کوئی خاص وجہ؟

ج : خوب سے خوب تر کی جستجو کراچی لے آئی۔ اور پھر کوئٹہ میں کام کے مواقع بھی انتہائی محدود ہوگئے تھے۔ اب یہاں نہ صرف ٹی وی اور اسٹیج ڈراموں میں کام کررہا ہوں، بلکہ ڈراما نویسی کے ساتھ ایک نجی چینل سے بھی وابستہ ہوں۔

س : عموماً دیکھا گیا ہے کہ عُمر کے آخری حصّے میں اداکاروں کے حصے میں کسمپرسی ہی آتی ہے، تو اس کے ذمّے دار خودفن کار ہیں یا پھر حکومت کو اس ضمن میں کوئی ٹھوس اقدام کرنے کی ضرورت ہے؟

ج : اصل میں جب اداکار اچھے دَور سے گزرتا ہے، تو اس کا مستقبل کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔ اور پھر بعد میں یہی کوتاہی، کسمپرسی کا سبب بن جاتی ہے۔ لیکن اب سوچ میں تبدیلی آرہی ہے۔ اب اداکار صرف اداکاری تک محدود نہیں رہے، اپنے مستقبل کی بھی پلاننگ کرتے ہیں۔

س : اب تک کتنے ایوارڈز حاصل کرچکے ہیں؟

ج : خیبرپختون خوا میں پشتو ڈراما کرنے پر بیسٹ ایکٹر کا ایوارڈ ملا، جب کہ ایک ایوارڈ میرے لکھے ہوئے ڈرامے کو بھی ملا۔

س : کس اداکار کے اسٹائل سے متاثر ہیں؟

ج : فردوس جمال، حسّام قاضی(مرحوم)، طلعت حسین، عظمیٰ گیلانی اور شفیع محمّد(مرحوم) کی صلاحیتوں کا معترف ہوں۔

س : کوئی ایسا کام، جو آپ نے کرنے کے بارے میں سوچا، مگر کیا نہیں؟

ج : وکالت کرنے کا ارادہ تھا، لاء کالج میں داخلہ بھی لیا، مگر پھر مصروفیت کے باعث تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکا۔

س : ستارہ کیا ہے؟

ج : میری تاریخِ پیدایش24جون1969ء ہے، تو اس لحاظ سے ستارہ سرطان ہے۔

س : جب فراغت کے پل میسّر ہوں، تو کیا کرتے ہیں؟

ج : موڈ پر منحصر ہے۔ ویسے زیادہ تر اہلِ خانہ کے ساتھ کسی تفریحی مقام پر چلا جاتا ہوں یا پھر غزلیں وغیرہ سُنتا ہوں۔

س : سُنا ہے آپ کھانا بہت لذید بناتے ہیں؟ تو کیا بنانے میں ماہر ہیں؟

ج : مَیں جب کراچی شفٹ ہوا، تو فیملی ساتھ نہیں تھی، تقریباً چھے سال اکیلا رہا، اسی لیے ہوٹلز کے کھانے کھانے کی بجائے خود بنانے کی کوشش کی اور اب تو خاصا ماہر ہوچکا ہوں۔ مٹن قیمہ، کڑاہی جب کہ رمضان المبارک میں فروٹ چاٹ بے حد لذیذ بنالیتا ہوں۔

س : کس بات پر دُکھی ہوجاتے ہیں؟

ج :جب حسّام قاضی کی یاد ستاتی ہے، تو بے حد دُکھی ہوجاتا ہوں۔ وہ جتنے بڑے فن کار تھے، اتنے ہی بڑے انسان بھی تھے۔ حسّام کے انتقال پر بہت عرصے تک افسردہ ہی رہا اور اپنے اس دُکھ کا اظہار شاعری میں بھی کیا، جو روزنامہ جنگ میں خصوصی طور پر شایع کی گئی۔

س : اپنے جونیئر ز کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ج : صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اداکاری کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اسکرین پر نظر آرہے ہیں، بلکہ آپ کو اپنی اداکاری کے ذریعے معاشرے میں ایک مثبت پیغام بھی دینا ہوتا ہے، جس کے لیے کتابوں سے دوستی ضروری ہے کہ مطالعہ سوچ بدلنے کے ساتھ صلاحیتوں کو بھی جلا بخشتاہے۔

ایک واقعہ ، جو حافظے میں نقش ہوگیا

سدا بہار فن کار، بہترین ڈراما نویس، جاوید جمال کی باتیں

جاوید جمال نے اپنی زندگی کے ایک ناقابلِ فراموش واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ’’شوبز انڈسٹری میں نام تبدیل کرنے کے حوالے سے بھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ جنرل مشرف کے دَورِحکومت میں ایوانِ صدر میں ایک تقریب منعقد ہوئی، جس میں مُلک بَھر سے ٹی وی اور فلم انڈسٹری کے اداکاروں کو بھی مدعو کیا گیا۔ ہمیں ہدایت کی گئی تھی کہ اپنی دو عدد تصاویر اور اوریجنل شناختی کارڈ ساتھ لائیں۔ 

تقریب سے ایک روز قبل ریہرسل تھی۔ جب مَیں ایوانِ صدر پہنچا، تو مدعو کی گئی شخصیات قطار میں کھڑی تھیں، سو مَیں بھی کھڑا ہوگیا۔ ہمیں سیریل نمبر الاٹ کیے گئے، جب سیکوریٹی اہل کار نے میرا شناختی کارڈچیک کیا، تو مجھے قطار سے نکال کر ایک الگ کمرے میں بٹھادیا گیا۔ میرے بعد ارباز خان(جن کا اصل نام عارف خان ہے)، زک آفریدی (زاہد خان) اور صائمہ(غنجی گل) سمیت کئی معروف اداکار اس کمرے میں بٹھادیئے گئے۔ 

اس دوران دوسرے سیکوریٹی عملے نے کلیئرنس کےلیے جو کارروائی کرنی تھی، وہ کی، پھر کچھ دیر بعد ہمارے شناختی کارڈ تھماتے ہوئے ایوانِ صدر جانے کی اجازت دی گئی۔ بعدازاں ایک سیکوریٹی اہل کار نے بتایا کہ دو ماہ سے ہماری نقل و حمل کی مانیٹرنگ کی جارہی تھی اور ہماری چیدہ چیدہ معلومات ان کے ریکارڈ میں موجود تھیں، لیکن انھیں مہمانوں کی جو فہرست دی گئی، اس میں نام کچھ اور تھا اور شناختی کارڈ میں کچھ اور، اسی وجہ سے یہ کنفیوژن پیدا ہوئی۔‘‘

تازہ ترین
تازہ ترین