میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ انور شعور ہمارے عہد کے سب سے دھیمے لہجے کے غزل گو ہیں اور اسی سبب الگ ہیں ۔ الگ اور ممتاز۔ یہ میں بہت ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں ۔ سلیم احمد نے کہا تھا :
’’جدید غزل ایک بے کلچر معاشرے کی پیداوار ہے۔ ہم اپنا پرانا کلچر گم کر چکے ہیں اور نیا ہم نے پیدا نہیں کیا ۔ اس لحاظ سے جدید غزل صرف خلا میں سانس لے رہی ہے ‘‘
آپ کہہ سکتے ہیں کہ سلیم احمد کی بات کا انور شعور کی شاعری سے کیا تعلق؟ مجھے جواب میں کہنا ہے؛ تعلق ہے ، بہت گہرا تعلق ۔ جس دھیمے پن کی میں بات کر رہا ہوں یہ اِس چلتر زمانے کی دین نہیں ہے ، اس کے پیچھے ایک تہذیب کی جمالیات اور ایک مستحکم روایت بولتی ہے ۔ ادب کی تمام اصناف، چاہے وہ نظم ہو ، افسانہ یا ناول، سب ایک سطح پر ثقافتی مظاہر ہیں، یہی سبب ہے کہ وہ وقت بدلنے کے ساتھ انہیں ’’ جدید‘‘ ہونے کا ہوکا لگا رہتا ہے اور اس کوشش میں وہ جدید ہو بھی جاتی ہیں ۔ قدیم ہونے کے لیے جدید ، مگر تہذیبی امی جمی کا مظہر ہو جانے والی صنفِ غزل کا مزاج الگ ہے اور اس مزاج کا ایک خاص عنصر ہے دھیما پن ، وہی ،جس نے انور شعور کی غزل کو مختلف اور نمایاں کر دیا ہے۔
اس دھیمے پن کا امتحان تو اس وقت ہوتا ہے کہ خیال بہت کھردرا اور نوکیلا ہو ، بات تلخ ہو ، اتنی کہ اس سے شعر کا نرم و نازک پیرہن مسکنے لگے ۔ ایسے عالم میں بھی کمال درجے کا ضبط انورشعور کے ہاں کام کر رہا ہوتا ہے، وہ مصرعے کی نازکی کا خیال رکھتے ہیں ۔بالعموم تلخ اور کھردرے کلام کو خود کلامی یا مکالمے کی صورت میں شعر میں برتا جاتا ہےکہ اسی طرح اس کا تیکھا پن براہ راست اور کاٹ دار ہو سکتا ہے ، ایسا کرتے ہوئے غزل کا اپنا تہذیبی مزاج الگ تھلگ کھڑا منہ چڑاتا رہتا ہے، تاہم انور شعور کے ہاں ایسا نہیں ہے ۔ وہ اپنے دھیمے پن کے اس امتحان میں یوں کامیاب ٹھہرتے ہیں کہ وہ سہولت سے تلخ سے تلخ بات کہہ جاتے ہیں ۔ مثلاً ایک غزل کا مطلع ہے :
حالات نہ پوچھیے کہ کیا ہیں
ہم آپ سے طالب ِ دعا ہیں
آپ کہہ سکتے ہیں اس میں تلخ بات کہاں ہے؟ وہی تو اس شعر میں نفاست سے نہاں رکھ دی گئی ہے۔ یہ لگ بھگ وہی المیہ ہے جس کی نشان دہی میر نے کی تھی:
میر کیا سادہ ہیں،بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
میر یات کے باب میں کہیں ’’لونڈے‘‘ کی جگہ’’ لڑکے‘‘ کا لفظ پڑھا تھا، مگر ہمارے منٹو صاحب نے چچا سام کے نام ایک خط میں اسے عطار کے لونڈے لکھا تو جی چاہا کہ اسے یوں ہی مقتبس کروں ۔ معاملہ چاہے انور شعور کے ہاں میر والا ہی ہو کہ اسی سے طالب دعا ہیں، جس کی وجہ سے اس خستہ حالی کا نشان ہوئے ، مگر ہمارا یہ شاعر میر جیسا سادہ نہیں ہے ۔ ان کی سادگی میں جو ایک شرارت ہے وہی انہیں مختلف کرتی ہے ۔ یعنی اپنی لاعلاج خستہ حالی پر بظاہر دعا کا یہ طالب طنز کا تیکھا تیر بھی کمان میں رکھ دیتا ہے۔
اور ہاں غزل کا ایک خاص وصف اس میں معنی آفرینی کا التزام بھی ہے ۔ ایک متعین معنیٰ نہیں۔ اگر ایک معنی بھی ہیں تو اس کے اندر سے طرفیں نکال لینا ۔ انور شعور کے ہاں یہاں معنی آفرینی والا یہ وصف بھی بولنے لگا ہے۔
میرصاحب کا ذکر آیا تویاد آیاکہ اثر لکھنوی نے میرصاحب کو سہل ممتنع کا شاعر کہا تھا ۔
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
غالب بھی تو سہل ممتنع میں کمال رکھتے تھے:
کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
کہنے کو یہ سیدھی ،سادی باتیں ہیں ، مگر سادگی اور سہولت کے پیچھے کام کرنے والی فنی ریاضت اور کمال کا اندازہ تب ہوتا ہے،جب ایسی فنی مہارت کسی شاعر کو دکھانی پڑتی ہے ۔ انور شعور کے ہاں یہ اختصاص بہ طورِ خاص شناخت ہوا ہے۔
ہم یہاں یا وہاں نہیں جاتے
بیٹھے بیٹھے کہاں نہیں جاتے
دوست کہتا ہوں تمہیں، شاعر نہیں کہتا شعور
دوستی اپنی جگہ ہے، شاعری اپنی جگہ
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا، تم ہو جاتا ہوں
اوپر والے آخری شعر میں لفظ ’’گم ‘‘کو انور شعور اکثر ازراہ تفنن’’ٹن‘‘ کر لیتے ہیں ۔ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو دھیان فوراً ان کے ان اشعار کی طرف چلا جاتا ہے جن میں انہوں نے ’’ دخترِ انگور ‘‘ کو برتا ہے ۔ غزل اور خمریات میں ایک تعلقِ خاص رہا ہے ۔غالب نے کہا تھا:
پلادے اوک سے ساقی جو مجھ سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے ، شراب تو دے
اور ریاض خیر آبادی ، جنہیں خمریات کا امام کہا گیا ہے،اُن کی ایک غزل کا مطلع ہے :
جس دن سے حرام ہو گئی ہے
مے، خلد مقام ہو گئی ہے
یہ ’’خلد مقام‘‘ انور شعور کے کلام میں بھی وقار پاتی ہے کہ بہ قول ان کے وہ اسی دختر انگور سے بغل گیر ہوکر اپنا سراغ پاتے ہیں ۔
پیو کہ ماحصلِ ہوش کس نے دیکھا ہے
تمام وہم و گماں ہے، تمام دھوکا ہے
نہ کیوں ہو صاحبِ جامِ جہاں نما کو حسد
شراب سے مجھے اپنا سراغ ملتا ہے
دیکھی ہے مے پی کرہم نے
سارا نشّہ اُتر جاتا ہے
انور شعور کا ایک اور شعر ان کی غزلوں کے تازہ مجموعے ’’آتے ہیں غیب سے ‘‘ لیا گیا ہے
مے بہت ہے مگر ذرا سی ہے
کیوں کہ بے انتہا اداسی ہے
اداسی اور بے انتہا اداسی ، بے گھری اور در بدری، ناسائی اور حد درجہ نارسائی ، بے تو قیری کا احساس اور دل کو مٹھی میں لے کر مسل دینے والا احساس ، یہ سب کچھ زندگی کا روز مرہ ہو کر انور شعور کے کلام کا حصہ بنتارہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے اشعار زبان زد عام ہوجاتے ہیں ۔ بنیادی طور پر وہ خیال کے مقابلے میں کیفیت کے شاعر ہیں تاہم ایسا لگ بھگ ہر بار ممکن ہو جاتا ہے کہ ان کے ہاں شعر بن جانے والی کیفیت سے خیال یوں پھوٹ نکلے، جیسے بیج سے بیخچہ ۔
شعر میں کس قبیلے کا لفظ آنا ہے اورکس مزاج کا یا پھرلفظوں کی نشست و برخاست کا معاملہ ہو، یوں لگتا ہے ان کے ہاں ایک خود کار نظام کے تحت کہ سب طے ہوتا ہے ، کہیں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ انہوں نے چن چن کر الفاظ اکٹھے کیے ہوں، بن بن کر مصرع کہا ہو ۔ اس باب میں بھی انور شعور تنہا ہیں۔
مجھ سا تنہا کوئی نہیں ہے شعور
یعنی یکتائے روز گار ہوں میں
اکثر غزل گو شعرا کے ہاں قافیہ محض خوش آہنگی کے طور پر آتا ہے تاہم ایسے بھی ہیں کہ اس کا استعمال ایک قرینہ ہو جاتا ہے۔ انور شعور کے ہاں بھی اسے ایک تخلیقی قرینے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔ انور شعور اپنے شعر میں کہیں کہیں صرف منظر بناتے ہیں تاہم دیکھا گیا ہے کہ یہ منظر کشی صرف منظر کا بیان نہیں رہتی ان کی غزل کی جمالیات بھی بنادیتی ہے ۔
وہ ہاتھ، میرے ہاتھ میں آیا تو دفعتاً
اک سنسی سی دوڑ گئی، جسم و جان میں
صرف اُس کے ہونٹ کا غذ پر بنا دیتا ہوں
خود بنا لیتی ہے ہونٹوں پر ہنسی اپنی جگہ
کچھ بھی مری آنکھوں کو سجھائی نہیں دیتا
جب سے تجھے دیکھا ہے، دکھائی نہیں دیتا
’’اندوختہ‘‘ انور شعور کا پہلا مجموعہ ہے جو 1995ء میں منظر عام پر آیا،مگر واقعہ یہ ہے کہ وہ شعر سے محبت کرنے والوں میں اس سے بہت پہلے محبوب ہو چکے تھے ۔ ’’مشق سخن ‘‘نے ان کی شناخت، سہل ِممتنع پر قادر شاعر کے طور مستحکم کی۔’’ می رقصم‘‘،’’ دل کا کیا رنگ کروں‘‘ اور اب ’’آتے ہیں غیب سے‘‘ کہیں بھی احساس نہیں ہوتا کہ ادابدا کر اُنہوں نے سادہ کاری سے غزل کہنے کا چلن بدلنے کے جتن کیے ہوں کہ انہیں یہی قرینہ خوش آتا ہے۔
انورشعور ایسا شاعر نہیں ، جسے شعر بنانا پڑے ، ایک خود کار نظام کے تحت اُن کے اندر سے تخلیق کا چشمہ پھوٹتا رہتا ہے اور اُن کی حسوں پر یلغار کرنے والے عصر کو خود بخود شعر میں منقلب کرتا رہتا ہے۔ خود بخود وجود میں آنے والی زندگی کی طرح اور خود بہ خود گزرنے والی زندگی کی طرح ۔وہ زندگی جو انور شعور کے حصے میں آئی ہے:
ملی تھی مجھے زندگی خود بخود
لہٰذا گزرتی رہی خود بہ خود
آخر میں مجھے وہی بات ایک بار پھر دہرانے دیں، جو آغاز میں کہہ آیا ہوں یہی کہ انور شعور ہمارے عہد کے سب سے دھیمے لہجے کے غزل گو ہیں۔ سب سے منفرد ۔سہل ممتنع کی ایک روشن مثال ہو جانے والے، زندگی کے روز مرہ کو شعر میں بہ سہولت ڈھال لینے والے ، حرف ِسادہ سے اس عہد کی تظہیر کرنے والے اوراس تہذیبی صنفِ سخن کا وقار بحال رکھ کر یوں دھیرے سے بات کرنے والے جیسے کوئی سماعتوں میں محبت کی سرگوشی انڈیلتا ہے ۔بجا کہ انور شعور کی غزل میں کہیں آگ ہے، کہیں پانی، مگرحیرت اس پر ہوتی ہے کہ وہ ہر بار اپنے خاص اسلوب میں لاکر محبت کی سر گوشی بنا لیتے ہیں۔
وہ کبھی آگ سے لگتے ہیں، کبھی پانی سے
آج تک دیکھ رہا ہوں انہیں، حیرانی سے